برکھا دت
اگر آپ غیر جذباتی سیاسی مبصر ہیں تو آپ کی نظر میں بنگال میں جن دو سیاسی پارٹیوں کا مقابلہ ہے، ان کے انتہا پسند دعوے کا کس طرح تجزیہ کریں گے۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے دعویٰ کیا ہے کہ مغربی بنگال میں بی جے پی 200 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے گی جبکہ ترنمول کانگریس کے حکمت عملی ساز پرشانت کشور نے ڈرامائی انداز میں بیان دیا ہے۔ اگر 294 رکنی مغربی بنگال کی اسمبلی میں بی جے پی کے نشستوں کی تعداد دو ہندسی عدد سے زیادہ ہو جائے تو وہ عملی سیاست سے دستبردار ہو جائیں گے۔
بی جے پی کے لئے بنگال کے تہذیبی ہندووں کی سیاسی ہندووں میں تبدیلی کا دیرینہ پروگرام ہے۔ اس نے اس ریاست کے مسائل کی تعمیر میں دل کھول کر سرمایہ کاری کی ہے اور بنیادی سطح پر بھی وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ لاکھوں سنگھ کے رضاکار پوری ریاست کے دیہاتوں میں سرگرم ہیں اور اس کا مقصد اپنی کارکردگی کے بارے میں جو گزشتہ چند سال سے وہاں جاری ہے عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہے۔
درحقیقت گزشتہ اسمبلی انتخابات 2016 اور لوک سبھا انتخابات 2019 کے درمیان گزشتہ تین سال کے دوران پارٹی نے 6 اسمبلی حلقوں کو 121 اسمبلی حلقوں تک پہنچا دیا ہے، جبکہ ممتابنرجی کے رائے دہندوں کا حلقہ مستحکم برقرار ہے۔ بی جے پی بائیں بازو کے حامی رائے دہندوں کی اس بار تائید حاصل کرنے کی نمایاں طور پر جدوجہد کررہی ہے۔ چنانچہ سیاست ’’بام سے رام‘‘ منتقل ہوگئی ہے۔ بنگال میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے بی جے پی کو نمایاں طور پر اپنی نشستوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اس بار ترنمول کانگریس کو یقین ہے کہ مغربی بنگال اس کا مستحکم گڑھ ہے اور اسے یہاں سے کوئی بھی نہیں نکال سکتا۔
دونوں فریق ایک بات پر متفق ہوں گے۔ پہلی بات یہ کہ اس بار بھیانک مقابلہ ہوگا لیکن نتیجہ یکطرفہ نکلے گا۔ باالفاظ دیگر بنگال نے ایک فریق واضح طور پر کامیاب ثابت ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ چیف منسٹر ممتابنرجی نے گزشتہ انتخابات میں اپنے ایک قریبی پارٹی سے الفاظ ادھار لئے تھے۔ ’’یہ ان کی ایک غلطی تھی اور وہ اس کا اعادہ نہیں کریں گی۔ انہوں نے بی جے پی پر تنظیمی اور انفرادی سطح پر سخت تنقید کی تھی‘‘۔ ترنمول کانگریس عہد کئے ہوئے ہے کہ ان غلطیوں کا اعادہ نہیں کرے گی۔
کئی وجوہات کی بناء پر ممتابنرجی کی پارٹی کو یقین ہے کہ وہ مشرقی ہندوستان میں مودی کی ناٹک کے مقابلہ میں کامیاب رہے گی۔ پہلی بات یہ کہ پرشانت کشور کا کہنا ہے کہ ترنمول کانگریس تمام سو فیصد رائے دہندوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ مغربی بنگال میں 30 فیصد رائے دہندے مسلمان ہیں اور بی جے پی باقی 70 فیصد رائے دہندوں کو ترغیب دینے کی کوشش کررہی ہے۔
ترنمول کانگریس کو یقین ہے کہ بنگالیوں کی کافی تعداد دیگر مقامات پر منتقل ہوچکی ہے اور اس سے اسے فائدہ حاصل ہوگا۔ ملک گیر سیاست کی طرح 6 ریاستوں میں 300 لوک سبھا نشستیں ہیں، جبکہ بنگال کے 9 اضلاع میں 184 نشستیں ہیں۔ مشرقی بردمان، مشرقی مدنا پور، مغربی مدناپور، شمالی 24 پرگنا ہبلی ندیا مرشد آباد، جنوبی 24 برگنا اور ہاوڑہ ان میں شامل ہیں۔ یہاں پر ترنمول کانگریس کی گرفت اپنے طور پر انتہائی مضبوط ہے۔ شخصی طور پر ممتابنرجی عوام میں مقبول ہیں اور ان پر اپنی گرفت رکھتی ہیں۔ چاہے ان کی پارٹی کے دیگر قائدین کی اتنی مقبولیت نہ ہو۔ ممکن ہے کہ ان کے لئے ووٹ دینے کا جنون نہ پایا جاتا ہو لیکن ممکن ہے کہ پورے مغربی بنگال میں اگر جذبات کی بنا پر ووٹ دیئے جائیں تو ممتابنرجی کا ناکام ہونا ناممکن ہے۔ اگر جوں کا توں حالت برقرار رکھنے کا رجحان باقی رہتا ہے تو وہ اور ان کی غیر موجودگی میں بی جے پی کی مقامی شبیہہ ترنمول کانگریس کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگی۔ بے شک ممتابنرجی اپنی پارٹی کے غیر مقبول ہونے کی صورت میں بھی اس کی علامت برقرار رہیں گی جبکہ ترنمول کانگریس ممتابنرجی کی علامت نہیں ہے۔ پرشانت کشور اور ان کی ٹیم نے ترنمول کانگریس نے بڑے پیمانے پر تنظیمی تبدیلیاں کی ہیں۔ حکومت میں بھی نوجوانوں کو زیادہ نمائندگی دی گئی ہے۔ ایسے کم از کم 40 نوجوان حکومت میں شامل کئے گئے ہیں جیسے مہوا موئترا، پارتھا پرتم رائے، موسم نور کو اہم اضلاع کے انچارج مقرر کیا گیا ہے۔ دو کلیدی عوام تک رسائی حاصل کرنے کے پروگرام ’’دیدی کے بولو اور دوارے سرکار‘‘ شروع کئے گئے ہیں اور یہ دونوں ترنمول کانگریس کے بنیادی ہتھیار ہیں۔ پارٹی قائدین کو تقریباً 75 لاکھ ٹیلی فون کال شہریوں کی جانب سے پہلے ہی حاصل ہوچکے ہیں۔ ایک ہزار نگرانکار روزانہ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ایک کروڑ 50 لاکھ افراد دوارے سرکار کیمپوں میں تعینات کئے گئے ہیں۔ روزانہ کئی لاکھ افراد ان سے ربط پیدا کرتے ہیں۔ ترنمول کانگریس کو اس کا یقین ہے کہ پارتھا شری ابھیان (ایک دیو قامت اسکیم جس کے تحت ہزاروں دیہی سڑکوں کو بہتر بنایا جائے گا) زبردست کامیاب رہے گا اور پسماندہ طبقات کے رائے دہندوں کی ترنمول کانگریس کو تائید حاصل ہوگی۔
ممتابنرجی کے راستہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور وہ بی جے پی کے جارحانہ حملوں کا کامیابی سے مقابلہ کررہی ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ بی جے پی انہیں ہندو دشمن قرار دے رہی ہے لیکن تمام پجاریوں کو ریاست گیر سطح پر اعزازیہ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ بی جے پی کا ٹرمپ کارڈ ہمیشہ کی طرح وزیر اعظم ہیں چند مودی عناصر یقینی طور پر سیاست میں عروج حاصل کریں گے کیونکہ بنگال میں شہریت قانون سازی آئندہ چند مہینوں تک نافذ نہیں کی جاسکے گی۔