وینکٹ پارسا
بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ جنہیں دنیا کی سب سے طویل مدت تک بحیثیت خاتون وزیر اعظم خدمات انجام دینے کا اعزاز حاصل رہا وہ عوامی مقبولیت کی بلندیوں کو چھو چکی تھیں اور ایک مرحلہ پر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ناقابل تسخیر بن گئی ہیں اور ساری اپوزیشن ملکر بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی لیکن جس انداز میں ان کے سیاسی کیریئر کا خاتمہ ہوا وہ انتہائی افسوسناک رہا۔ وہ عہدہ وزارت عظمی سے استعفیٰ دے کر اپنے ہی ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہوئیں (فی الوقت وہ ہندوستان میں ہیں اور کہا یہ جارہا ہے کہ امریکہ، برطانیہ، فن لینڈ یا پھر خلیجی ملکوں میں سے کسی ایک ملک میں سیاسی پناہ لینے کی خواہاں ہیں) ایک بات ضرور ہیکہ شیخ حسینہ واجد کے سیاسی کیریئر کا اختتام عبرت ناک رہا۔ اگر دیکھا جائے تو شیخ حسینہ واجد کا اپنے ہی ملک سے فرار ہونا ضروری ہوگیا تھا کیونکہ طلبہ کے پرتشدد احتجاج کے دوران بے شمار طلبہ کے جاں بحق ہونے پھر احتجاج پر قابو پانے میں پولیس کی ناکامی نے فوجی قیادت کے آگے آنے کی راہ ہموار کی اور ایک ایسا مرحلہ بھی آیا جب فوج نے انہیں ملک سے نکل جانے کے لئے 45 منٹ کی مہلت دی نتیجہ میں وہ اپنے ضروری کاغذات و دستاویزات اور سامان لئے ہندوستانی فوجی طیارے میں بنگلہ دیش سے نکل کر ہندوستان پہنچ گئیں۔ ان کے ہمراہ ان کی بہن ریحانہ بھی تھیں۔ اس تمام قصہ یا کارروائی میں بنگلہ دیشی فوج اور فوجی سربراہ وقار الزماں کا اہم کردار رہا جیسا کہ راقم الحروف نے سطور بالا میں آپ کو بتایا۔ فوجی سربراہ نے شیخ حسینہ کو ملک سے تخلیہ کرنے کے لئے 45 منٹ کی مہلت دی گئی جس کے ساتھ ہی وہ ایک خصوصی پروازمیں بیٹھ کر ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے غازی آباد میں اتر پڑے، غازی آباد کے ہنڈن ایرپورٹ پر ان کی آمد کے موقع پر انتہائی رازداری برتی گئی۔ یہ ایرپورٹ دارالحکومت دہلی کے مضافات میں واقع ہے۔ شیخ حسینہ واجد کو جس طرح حالات کا اچانک سامنا کرنا پڑا فی الوقت حسینہ واجد صدمہ میں ہیں کیونکہ ان کے ساتھ وہ ہوگیا جس کے بارے میں شاید انہوں نے سوچا تک نہیں تھا اور یہ تبدیلیاں ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھیں۔ ویسے بھی حسینہ واجد اس قدر خطرناک حالات سے اچانک دوچار ہوئیس جس کے نتیجہ میں اپنے مستقبل کے منصوبے بنانے سے قاصر رہی۔ جہاں تک شیخ حسینہ کی جلاوطنی کا سوال ہے یہ پہلی مرتبہ نہیں ہیکہ انہوں نے ہندوستان میں سیاسی پناہ لی ہو۔ 1975 میں جب ان کے والد اور بنگلہ دیش کی پاکستان سے آزادی کے ہیرو و بنگلہ دیش کے معماروں میں سے ایک شیخ مجیب الرحمن کا انتہائی بے دردی سے قتل کردیا گیا تھا اور ان کے سارے خاندان کا صفایا کردیا گیا چونکہ اس وقت شیخ حسینہ اور ان کی بہن ریحانہ جرمنی میں تھے، اس لئے دونوں کی زندگیاں بچ گئیں۔ 1975 تا 1981 شیخ حسینہ نے ہندوستان میں پناہ لی۔ اسی طرح یہ دوسری مرتبہ ہیکہ انہوں نے ہندوستان میں پناہ لی، وہ 5 اگست 2024 سے وہ ہندوستان میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔
پڑوسی ملک میں ڈکٹیٹر شپ: آپ کو بتادیں کہ ہندوستان اور پاکستان کی ایک ہی وقت میں آزادی کا اعلان کیا گیا۔ دونوں کی آزادی میں چند گھنٹوں کا فرق تھا۔ ہندوستان کو 15 اگست 1947 اور پاکستان کو 14 اگست 1947 کو آزادی ملی۔ آزادی کے بعد ہندوستان میں جمہوریت کو زبردست استحکام حاصل ہوا۔ یہاں تک کہ پاکستان میں بھی جمہوریت کو فروغ حاصل ہوتا رہا اور اس کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب 1971 میں بنگلہ دیش کے نام سے ایک علیحدہ ملک وجود میں آیا جو دراصل مشرقی پاکستان کی پاکستان سے آزادی کا نتیجہ تھا۔ پاکستان سے بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد پڑوسی ملک پاکستان عملاً آمریت میں غرق ہوگیا۔ اسی طرح پاکستان جنرل ایوب خان سے لے کر یحییٰخان، جنرل ضیا الحق سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک پاکستان نے سخت فوجی آمریت کا سامنا کیا اور آج بھی پاکستان میں فوج کا دبدبہ ہے جس کے سامنے وہاں کی سیاسی جماعتیں بے بس و مجبور ہیں۔ 1971 میں جدوجہد آزادی سے بنگلہ دیش کی تخلیق ہوئی اور پاکستان سے ایک اہم حصہ کے نکل جانے کے بعد ملٹری ڈکٹیٹر شپ منظر عام پر آئی اور تب سے لے کر اب تک پاکستان میں اصل حکومت ڈکٹیٹروں کی رہی ہے۔ دوسری طرف ہندوستانی سیاسی قیادت کی کی غیر معمولی کوششیں ہیں جس کے نتیجہ میں جمہوریت کو بہت زیادہ استحکام حاصل ہوا۔ یہ قیادت 1947 میں جدوجہد آزادی سے منظر عام پر آئی۔ آج ہم اپنے ملک میں جمہوریت کے جو ثمرات دیکھ رہے ہیں وہ ان ہی مجاہد آزادی اور ہندوستانی قیادت کی مرہون منت ہے۔ 1971 میں بنگلہ دیش کو آزادی حاصل ہوئی جس کے بعد سے وہاں تقریباً 30 مرتبہ بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔ مثال کے طور پر پاکستان سے آزادی کے صرف اندرون چار سال بنگلہ دیش میں کئی بغاوتوں کا آغاز ہوا۔ 1975 میں بنگاہندھو شیخ مجیب الرحمن کے قتل کے بعد وہاں کھونڈاکر مشتاق احمد اقتدار میں آئے، بعد میں بریگیڈیئر خالد مشرف نے کھونڈاکر مشتاق احمد کو اقتدار سے ہٹانے کی خاطر بغاوت کردی۔ پھر حسین محمد ارشاد نے بغاوت کرکے اقتدار حاصل کرلیا۔ 1981 میں لیفٹننٹ جنرل ضیا الرحمن کو قتل کردیا گیا وہ 1977 سے ملک کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ 15 اگست 2024 کو بنگلہ دیش نے بنگا۔ ہندھو شیخ مجیب الرحمن کے قتل کی 50 ویں برسی منانے والا تھا ان تمام برسوں میں اس ملک میں تقریباً 30 بغاوتیں ہوئیں اور تازہ ترین بغاوت موجودہ فوجی سربراہ وقار الزماں کی قیادت میں کی گئی جنہوں نے سیاسی جماعتوں جیسے بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی)، جاتیہ پارٹی، جماعت اسلامی و دیگر گروپوں سے عبوری حکومت تشکیل دینے کی بات کی اور پھر نوبل لاریٹ محمد یونس کی قیادت میں عبوری حکومت قائم بھی کردی۔ ڈاکٹر محمد یونس، غریبوں کو معاشی طور پر بااختیار بنانے مائیکرو فینانس کا عمل شروع کرنے کے لئے جانے جاتے ہیں۔ دوسری جانب شیخ حسینہ کی کٹر حریف بی این پی لیڈر بیگم خالدہ ضیا جو 17 سال کی سزائے قید بھگت رہی تھیں انہیں اب رہا کردیا گیا اور عبوری حکومت کی تشکیل کے باوجود بنگلہ دیش کی فوجی قیادت ملک کے تمام امور میں کلیدی کردار ادا کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ موجودہ حالات سے تو ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ وہاں جمہوریت کمزور پڑ گئی ہے۔ اب آپ کو بتاتے ہیں کہ آخر وہاں طلباء شیخ حسینہ واجد کے خلاف کیوں اٹھ کھڑے ہوئے۔ دراصل یہ سارا تنازعہ تحفظات یا کوٹہ کے باعث پیدا ہوا۔ یہ کوٹہ دراصل بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن نے 1972 میں متعارف کروایا تھا جس کے تحت بنگلہ دیش کے مجاہدین آزادی یا مکتی یودھاس کی اولاد کو ملازمتوں میں تحفظات فراہم کئے جانے لگے۔ مجیب الرحمن نے ان بنگلہ دیشی خواتین کے لئے بھی ملازمتوں میں کوٹہ مقرر کیا جن کا پاکستانی فوج نے استحصال کیا تھا۔ مجیب الرحمن نے آزادی کے بعد بنگلہ دیشی قوم کو یہ تیقن دیا تھا کہ نئے ملک میں ان تمام کے ساتھ انصاف کیا جائے گا جنہوں نے ملک کو پاکستان سے آزاد کروانے کے لئے اپنی زندگیاں قربان کی تھیں اور آزادی کے لئے مصیبتوں کا سامنا کیا۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والوں پر پاکستانی فوج نے ناقابل مظالم ڈھائے تھے۔ اصل واقعہ یہ ہیکہ 1972 سے چلے آرہے کوٹہ سسٹم کو برخواست کرنے کے لئے 2018 کو کوٹہ مخالفین نے تحریک شروع کی اور عدالت میں مقدمہ دائر کیا۔ 8 مارچ 2018 کو بنگلہ دیش ہائی کورٹ نے اس درخواست کو مسترد کردیا۔ اس دوران شیخ حسینہ نے اس بات کا اعلان کیا کہ وہ ہرحال میں 1971 کی جنگ آزادی کے مجاہدین کی اولاد کو تحفظات فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گی کیونکہ یہ معاملہ ان کے لئے بہت جذباتی معاملہ ہے۔ ایسا معاملہ جو ان کے والد کی وراثت سے بڑا ہے تاہم طلبہ نے شیخ حسینہ کے اعلان کی شدت سے مخالفت کرتے ہوئے احتجاج شروع کردیا۔شیخ حسینہ نے احتجاجی طلبہ کی شکایات دور کرنے کی بجائے ان کے احتجاج کو طاقت کے زور پر دبایا جائے کی پالیسی اختیار کی اور احتجاجی طلبا کے خلاف بنگلہ دیش عوامی لیگ کی طلبا ونگ بنگلہ دیش چھاترا لیگ کو میدان میں اتارا اور ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنایا کہ پولیس کو ان کی تائید و حمایت حاصل ہوئے۔ 15 جولائی کو اس کے نتیجہ میں کم از کم 6 لوگوں کی موت ہوئی اور پھر اس کے بعد تین دنوں میں مزید 200 لوگ مارے گئے جس میں 78 فیصد طلبہ اور شہری شامل تھے۔ اس قدر زیادہ تعداد میں اموات کے باوجود شیخ حسینہ نے احتجاجیوں کی جانب سے جو مالی نقصان ہوا ہے اس پر ساری توجہ مرکوز کی اور اپوزیشن جماعتوں پر الزام عائد کیا کہ وہ سیاسی فائدہ اور مفادات کی تکمیل کے لئے طلبا کا جذباتی استحصال کررہی ہیں۔ شیخ حسینہ واجد کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے مہلوک طلبہ کے غمزدہ ارکان خاندان کو پرسہ تک نہیں دیا بلکہ انھوں نے احتجاجیوں کے ہاتھوں تباہ شدہ سرکاری املاک کے معائنہ کئے۔ نتیجہ میں عوامی برہمی میں شدت پیدا ہوگئی اور عوام نے ان پر تنقیدوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ ابتداء میں طلباء نے کوٹہ نظام میں اصلاحات اور دوسرے مطالبات کئے۔ بعد میں ان لوگوں نے شیخ حسینہ واجد سے معذرت خواہی اور استعفے کا مطالبہ کردیا۔ افسوس اب بنگلہ دیش بھی پاکستان کی راہ پر گامزن ہوگیا ہے۔