ڈھاکہ۔9 اکتوبر۔(سیاست ڈاٹ کام) بنگلہ دیش کی راجدھانی ڈھاکہ میں بنگلہ دیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں ایک طالب علم کے قتل کے بعد ملک بھر میں اسٹوڈنٹس کی جانب سے شدید احتجاج کیا جارہاہے ۔ 21 سالہ ابرار فہد کو سوشل میڈیا میں حکومت پر تنقید کرنے کے بعد چھٹی کے روز ہوسٹل میں مردہ پایا گیا تھا۔رپورٹ کے مطابق ابرار فہد کے قتل کے شبہ میں بنگلہ دیش کی حکمراں جماعت عوامی لیگ کی اسٹوڈنٹس ونگ سے تعلق رکھنے والے متعدد کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے ۔بنگلہ دیش کی مشہور یونیورسٹی میں طالب علم کے قتل پرہر طر ف سوگ کا سماں ہے اور ہزاروں اسٹوڈنٹس نے احتجاج کیا جبکہ سرکاری یونیورسٹیوں میں رونما ہونے والے قتل کے واقعات بھی آشکار ہو رہے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عوامی لیگ کی اسٹوڈنٹس ونگ بنگلہ دیش چترا لیگ (بی سی ایل) پر طلبا پر تشدد اور ان سے بھتہ خوری کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں، تاہم حکومت نے یقین دلایا ہے کہ وہ ابرار فہد کے قتل کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے پر کھڑا کرے گی۔21سالہ ابرار فہد کی لاش بنگلہ دیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ڈھاکہ میں اتوار کو برآمد ہوئی تھی۔ خیال رہے بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد پر اپوزیشن پارٹیوں اور اپنے سیاسی حریف اراکین کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے ۔پولیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنے کے بعد ابرار فہد کے ہاسٹل سے 9 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جن میں سے 5 کا تعلق بی سی ایل سے ہے ۔پولیس کے مطابق اب تک مجموعی طور پر 13 افراد گرفتار کئے جاچکے ہیں اور یہ تمام یونیورسٹی سے ہی حراست میں لیے گئے ہیں۔ ڈھاکہ کے ڈپٹی پولیس کمشنر منتصرالاسلام نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ طالب کو تشدد کرکے قتل کیا گیا۔دوسری جانب ڈھاکہ اور دیگر شہروں میں طلبہ نے سڑکوں پر احتجاج کیا اور نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں کو بلاک کردیا اور مسلسل دوسرے روز بھی ابرار فہد کے قاتلوں کو گرفتار کرنے ، سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔بنگلہ دیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں ہونے والے احتجاج میں یونیورسٹی کے سابق طلبا اور ٹیچنگ اسٹاف نے بھی شرکت کی۔یونیورسٹی کی ٹیچرز ایسو سی ایشن کے صدر اے کے ایم مسعود نے کہا کہ یونیورسٹی کے رہائشی ہال میں ایک طالب علم کا تشدد سے قتل ناقابل قبول ہے ۔ فہد کے قتل سے واضح ہوگیا ہے کہ حکمران اسٹوڈنٹس کے تحفظ میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔