بنگلہ دیش کو افغانستان نہیں بننے دیں گے، ہندوستان کو ڈاکٹر یونس کا پیغام

,

   

بنگلہ دیش کی بقاء صرف شیخ حسینہ کی قیادت سے مشروط نہیں۔ محترمہ، ہندوستان میں رہ کر بیان بازی سے گریز کریں

ڈھاکہ : بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس نے کہا ہے کہ ملک میں ہندوؤں پر حالیہ حملے فرقہ وارانہ کشیدگی کا نتیجہ نہیں بلکہ اِن حملوں کی نوعیت سیاسی ہے اور یہ کہ ہندوستان اس حوالے سے جو بیانیہ اختیار کر رہا ہے وہ سراسر بے بنیاد ہے۔ ہندوستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا سے خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر محمد یونس نے کہا کہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے ختم ہونے کے بعد سے اب تک معاملات قابو میں رہے ہیں۔ ہندوستان سمیت کئی ممالک یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ شیخ حسینہ کے بعد کا بنگلہ دیش بگڑتے بگڑتے افغانستان جیسا ہوجائے گا۔ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ بنگلہ دیش میں سیاسی و معاشی استحکام کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر محمد یونس کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کو سیاسی اور معاشی اعتبار سے بالکل درست اور مضبوط ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔ عام انتخابات کے نتیجے میں حقیقی نمائندہ حکومت کے قائم ہونے سے حقیقی فرق واقع ہوگا۔ عوام بھی امن اور معاشی استحکام چاہتے ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں لوگ پرسکون ہیں۔ بیرونی میڈیا بنگلہ دیش کی غلط تصویر پیش کر رہے ہیں۔ ہندوؤں سمیت تمام ہی اقلیتیں سکون سے ہیں۔ اس حوالے سے مِس انفارمیشن پھیلائی جارہی ہے۔ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ نے ہندوستانی قیادت سے کہا کہ وہ بنگلہ دیش کے بارے میں اپنا بیانیہ بدلے اور ایسی باتیں نہ کرے جن سے کشیدگی پھیلے اور دوطرفہ تعلقات میں خرابی مزید بڑھے۔ بے بنیادی معاملات کی بنیاد پر گمراہ کن باتیں کرنے کے بجائے ہندوستانی قیادت کو دوطرفہ تعلقات بہتر بنانے اور خطہ میں حقیقی استحکام پیدا کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ ڈاکٹر یونس کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حملے ہوئے ہیں اور ہم نے اِن حملوں کو روکنے کیلئے اقدامات بھی کیے ہیں مگر ہندوستانی قیادت اس حوالے سے بہت زیادہ پروپیگنڈا کر رہی ہے۔ ہندوستانی میڈیا بھی اپنی توپوں کا رخ ہندوستان کی طرف کیے ہوئے ہیں۔ یہ وقت گمراہ کن باتیں کرنے سے زیادہ اعتماد پیدا کرنے والے معاملات کی طرف متوجہ ہونے کا ہے۔ ڈاکٹر محمد یونس نے کہا کہ ہندوستانی قیادت کو اس بیانیہ سے آگے بڑھ کر بات کرنی چاہیے کہ بنگلہ دیش صرف شیخ واجد کے ہاتھوں ہی میں محفوظ رہ سکتا ہے۔ نوبیل انعام یافتہ ماہرِ معاشیات کا مزید کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کی عبوری انتظامیہ تمام معاملات کو مرحلہ وار درست کرتی جارہی ہے۔ ملک استحکام کی راہ پر گامزن ہے اور رفتار بھی پکڑ رہا ہے۔ کسی بھی پڑوسی ملک کو بنگلہ دیش کے حالات سے خائف ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہاں افغانستان جیسا کچھ نہیں۔ ویسی نراجیت ہمارے ہاں نہیں پائی جاتی۔ ادارے کام کر رہے ہیں۔ معیشت بھی بحالی کی ڈگر پر چل رہی ہے۔ ہندوستانی قیادت یہ تاثر دینے کی بھی کوشش کر رہی ہے کہ شیخ حسینہ واجد کو ہٹانے کے بعد جو لوگ اقتدار میں ملک کو چلا رہے ہیں وہ اسلام نواز یا مذہبی شدت پسند ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اسلام نواز ہے، کبھی کہا جاتا ہے کہ پوری عبوری انتظامیہ ہی اسلامی شدت پسند ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حسینہ واجد کو واپس لانا ہوگا ورنہ بنگلہ دیش کے لوگ سکون میں نہیں آئیں گے۔ ہندوستانی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے محمد یونس کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کی حوالگی درخواست تک حسینہ واجد کو ہندوستان میں خاموش بیٹھنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ حوالگی کے مطالبہ تک ہندوستان حسینہ واجد کو رکھنا چاہتا ہے تو حسینہ واجد کا خاموش رہنا شرط ہے۔ محمد یونس کا کہنا تھا کہ حسینہ واجد کے ہندوستان میں بیٹھ کر بیان بازی کرنے سے کوئی خوش نہیں، ان کے ہندوستان سے بنگلہ دیش پر کیے جانے والے تبصرے غیر دوستانہ ہیں۔ بنگلہ دیش کے مشیر اعلیٰ نے کہا کہ حسینہ واجد عوامی انقلاب اور ناراضی کے باعث فرار ہوئیں، حسینہ واجد کو ہندوستان میں پناہ دی گئی ہے اور وہ وہاں سے مہم چلا رہی ہیں۔محمد یونس نے کہا کہ حسینہ واجد کو واپس لانا ہوگا ورنہ بنگلہ دیش کے لوگ سکون میں نہیں آئیں گے، حسینہ واجد نے جو مظالم کیے ہیں اس کا بنگلہ دیش میں سب کے سامنے احتساب ہونا چاہیے۔