محمد نعیم وجاہت
بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد حکومت کا تختہ پلٹے جانے کے بعد یہ سوال بہت زیادہ گردش کررہا ہے کہ ہندوستان کے مفادات کس قدر متاثر ہوں گے؟ اس کی ایک اہم وجہ بھی ہے جس وقت وہاں خالدہ ضیاء کی حکومت تھی پاکستان نواز جماعت اسلامی کے اثر و رسوخ میں بے تحاشہ اضافہ ہوا، اور ہندوستانی مفادات متاثر ہوئے۔ اس بارے میں میڈیا کے مختلف حلقوں بالخصوص نیوز لانڈری میں یہ واضح طور پر لکھا گیا کہ خالدہ ضیاء کی حکومت اپنے اقتدار کے پورے 5 برسوں میں جماعت اسلامی پر منحصر رہی۔ بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان نواز ہے اور ہندوستان کی سخت مخالف۔ نیوز لانڈری نے اس بارے میں مزید لکھا ہے کہ خالدہ ضیاء حکومت کے 5 سال سیکورٹی کے حوالہ سے ہندوستان کیلئے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھے۔ اس حکومت کے دورن بنگلہ دیش انتہا پسند اور بنیاد پرست عناصر کیلئے ایک زرخیز میدان بن چکا تھا اور شمال مشرق کے باغی گروپوں کو بنگلہ دیش میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی گئیں۔ ہندوستان کے خلاف جذبات میں اضافہ ہوا، اور اس کے دس برسوں بعد 2009 میں شیخ حسینہ واجد کی اقتدار میں واپسی دہلی کیلئے ایک بڑی راحت کا باعث بنی تھی۔ اس کے بعد سے ڈھاکہ اور دہلی نے سیکورٹی کے اُمور و معاملات پر مل جلکر کام کیا۔ لہذا شیخ حسینہ واجد کا اقتدار سے بیدخل ہونا اور بنگلہ دیش کی آزادی کی تاریخ پر حملہ ہندوستان کیلئے بحران کی علامت ہے۔
شیخ حسینہ واجد کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا جھکاؤ زیادہ تر ہندوستان کی طرف تھا اور ان کے ہندوستان نواز رویہ نے ہی اپوزیشن اور عوام کو برہم کردیا۔ واضح رہے کہ شیخ حسینہ کی حکومت کا تختہ پلٹے جانے کے بعد وہاں ہندوؤں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے ہورہے ہیں جس پر ہمارے ملک کی حکمراں بی جے پی نے تشویش کا اظہار کیا ۔اس حوالے سے بی جے پی کے کئی وزراء نے کانگریس لیڈر راہول گاندھی ، پرینکا گاندھی اور ایم آئی ایم کے اسد الدین اویسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، ان کے خیال میں فلسطینیوں پر مظالم پر تو یہ لوگ بات کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیش میں جب ہندوؤں پر ظلم ہوتا ہے تو ان کی زبانیں خاموش ہوجاتی ہیں۔
آپ کو بتادیں کہ گذشتہ دس برسوں میں بنگلہ دیش نے اقتصادی سطح پر غیر معمولی ترقی کی جہاں گذشتہ 15برسوں سے شیخ حسینہ واجد کی حکومت رہی لیکن اب یہ ملک سیاسی عدم استحکام سے گذررہا ہے۔ یہاں ایک بات تو ضرور کہی جاسکتی ہے کہ کسی کا بھی اقتدار مستقل نہیں رہتا کوئی بھی ہمیشہ اقتدار کے تخت پر براجمان نہیں رہ سکتا اور نہ ہی مذہبی ظلم و جبر کا سلسلہ جاری رکھ سکتا ہے۔ شیخ حسینہ اس کی تازہ ترین مثال ہیں جنہیں عہدۂ وزارت اعلیٰ سے استعفی دے کر اور اپنی جان بچاکر ملک سے فرار ہونا پڑا۔ اگر بنگلہ دیشی فوج انہیں ملک سے باہر نکالنے کے انتظامات نہیں کرتی تو شیخ حسینہ کا اور ان کے دیگر ارکان خاندان کی زندگیوں کا خاتمہ بھی ہوسکتا تھا۔
بنگلہ دیش سے جو میڈیا رپورٹس منظرِ عام پر آرہی ہیں ان میں دل دہلادینے والے انکشافات کئے گئے ہیں کہ شیخ حسینہ کے ملک سے فرار ہونے کے بعد ان کی پارٹی کے کئی رہنماؤں اور سرگرم کارکنوں کے قتل کئے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ عوامی لیگ کے بے شمار قائدین اور کارکنوں کی نعشیں دستیاب ہوئی ہیں۔ آپ کو بتادیں کہ بنگلہ دیش کی آبادی 17 کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے۔ دارالحکومت ڈھاکہ میں تشدد کے کافی واقعات پیش آئے ، بڑے پیمانے پر آتشزنی، توڑپھوڑ اور لوٹ مار کی گئی حد تو یہ ہے کہ شیخ مجیب الرحمن کے مجسموں کو بھی اُکھاڑ پھینکا جارہا ہے، حالانکہ شیخ مجیب الرحمن کو بنگلہ دیش کا نجات دہندہ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی بلکہ آزادی کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ شیخ مجیب الرحمن کے گھر کو آگ لگانا، اُن کے مجسموں کو گرانا اس بات کا اشارہ ہے کہ بنگلہ دیش کی تاریخ دوبارہ لکھی جانے والی ہے لیکن بنیاد کو اُکھاڑ پھینکنے اور سب کچھ تبدیل کردینے کی کوشش کتنی کامیاب ہوتی ہے اس کا فیصلہ مستقبل میں ہوگا۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ مجیب الرحمن کے جس گھر کو جلایا گیا اُس گھر میں 15 اگسٹ 1975 کو شیخ مجیب الرحمن اور ان کے دیگر 10 ارکان خاندان کو بڑی بیدردی سے قتل کردیا گیا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کی آزادی کی قیمت تھی جو شیخ مجیب الرحمن اور ان کے ارکان خاندان نے اپنی زندگیوں کے نذرانے پیش کرتے ہوئے ادا کی۔ موجودہ صورتحال میں یہ سوال بہت زیادہ گردش کررہا ہے کہ آخرکیا وجوہات ہیں جس کے نتیجہ میں ناقابلِ تسخیر نظر آنے والی شیخ حسینہ کے خلاف عدم اطمینانی کا سیلاب آیا ہے اور یہ سیلاب آخر کہاں سے آیا ؟ ۔
شیخ حسینہ دنیا بھر میں ایک جمہوریت پسند اور سیکولر لیڈر کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ ان کیلئے مشکلات کا آغاز تحفظات کے کوٹہ کے حوالے سے ایک یونیورسٹی میں شروع ہونے والے احتجاج سے ہوا، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ شیخ حسینہ جیسی مضبوط لیڈر کی سیاسی موت کا باعث بن گیا۔ شیخ حسینہ کے بارے میں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ان کا تعلق پاکستان سے بنگلہ دیش کی آزادی کیلئے لڑنے والے خاندان سے ہے جس کا خمیازہ ان کے خاندان کو بھگتنا بھی پڑا۔ 2009 کے بنگلہ دیشی انتخابات کو غیر جانبدارانہ اور قابلِ اعتماد انتخابات کہا جاسکتا ہے جس میں شیخ حسینہ اقتدار میں آئی تھیں لیکن اس کے بعد سال 2014، 2019 اور 2024 میں ہوئے انتخابات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ متنازعہ تھے، ان انتخابات میں دھاندلیاں کی گئیں، اُن انتخابات کا اپوزیشن کی اہم جماعتوں نے بائیکاٹ بھی کیا تھا۔
واضح رہے کہ ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے بارے میں بھی اسی طرح کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں۔ اپوزیشن کے خیال میں 2014 کے لئے عام انتخابات میں کانگریس کی ناراضگی سے مودی اور بی جے پی کو کامیابی ملی لیکن 2019 اور 2024 ء کے عام انتخابات میں دھاندلیاں کی گئیں ، الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں اُلٹ پھیر ہوئی اس معاملہ میں تقریباً 30 اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے صدر جمہوریہ اور الیکشن کمیشن آف انڈیا سے نمائندگی بھی کی جس کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اپوزیشن قائدین یہ بھی لزام عائد کرتے ہیں کہ اگر دھاندلیاں نہیں کی جاتی تو مودی کو بھی اسی طرح شکست کا سامنا کرنا پڑتا جس طرح ایودھیا ( فیض آباد ) سے بی جے پی امیدوار کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ضمن میں اپوزیشن‘ بعض بی جے پی قائدین کے بیانات کا حوالہ بھی دیتے ہیں لیکن بی جے پی نے ہمیشہ اس قسم کے الزامات کی تردید کی ہے۔
بہر حال ہم بات کررہے تھے بنگلہ دیش کی ‘ اس سلسلہ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ شیخ حسینہ نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھی اور معاشی شعبہ میں اپنے ملک کی رفتار تیز کرنے کی کوشش کی اور ان کی قیادت میں بنگلہ دیش ایک غریب ملک سے اپنے خطے میں تیزی سے ترقی کرتے ہوئے معیشت میں تبدیل ہوگیا۔ اس معاملہ میں اس نے ہندوستان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بنگلہ دیشیوں کی فی کس اوسط آمدنی میں دس برسوں کے دوران تین گنا اضافہ ہوا، اس ضمن میں ورلڈ بینک کے تخمینہ یا اندازہ کے مطابق پچھلے 20 برسوں میں ڈھائی کروڑ بنگلہ دیشیوں کو غربت کے دَلدل سے باہر نکالا گیا لیکن معاشی ترقی کے چکر میں جمہوری اقدار اور شہری حقوق کو بھی بڑی بیدردی سے کچلا جاتا رہا جس کا خمیازہ شیخ حسینہ کو ملک سے فرار ہوکر بھگتنا پڑا۔فی الوقت ہندوستان کیلئے فکر کی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش پاکستان نواز ہے جبکہ شیخ حسینہ ہندوستان سے بہت زیادہ قربت رکھتی ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں شیخ حسینہ واجد کی آمد کے ساتھ ہی ہمارے مشیر قومی سلامتی اجیت دوول نے ان سے ملاقات کی۔