اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا کا اجلاس۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی کا خطاب
حیدرآباد ۔ 27 ۔ اکٹوبر : ( راست ) : 6ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بنی بکر کی ایک شاخ قرطآء کی جانب سریہ بھیجا۔اس سریہ کی وجہ یہ تھی کہ اس قبیلہ کے سردار ثمامہ بن آثال نے اپنے علاقہ سے گزرنے والے قافلہ کے چند مسلمانوں کو بے وجہ شہید کر دیا تھا۔اس سریہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح سے نوازا اور ثمامہ بن آثال گو گرفتار کر کے مدینہ منورہ لایا گیا۔رسول اللہؐ نے ثمامہ بن آثال کو مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ رکھنے کا حکم دیا۔اس ارشاد مبارک کی یہ حکمت تھی کہ ثمامہ مسلمانوںکو پانچ وقت نماز پڑھتا ہو ا دیکھ لے اور اہل ایمان کے بارگاہ الٰہی میں عجز و نیاز کے طور طریق کا نظارہ کر لے۔ یقینا یہ منظر اللہ وحدہ لاشریک کی یاد اورآخرت کی رغبت دلانے کا موثر ذریعہ ہیں۔ رسول اللہؐ ہر روز ان سے بات کرتے رہے۔تین دن بعد رسول اللہؐ نے انہیں آزاد کر دینے کا حکم دیا۔ثمامہ کی خوشی و مسرت کی انتہا نہ رہی۔ وہ رہا ہوئے اور ایک قریبی نخلستان جا کر غسل کیا اور پھر مسجد نبوی میں آئے اور مشرف بہ ایمان ہوئے۔حضرت ثمامہ بن آثالؓ نے عرض کیا کہ ’’آج آپ کے چہرہ سے زیادہ روئے زمین پر مجھے کوئی چہرہ محبوب نہیں۔ آپ کے شہر سے زیادہ کوئی شہر عزیز نہیں اور آپ کے دین سے زیادہ کوئی دین پیارا نہیں۔ آج سے پہلے کا معاملہ اس کے برخلاف تھا‘‘۔ ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح 9 بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میں ان حقائق کا اظہار کیا۔وہ اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل (انڈیا) آئی ہرک کے زیر اہتمام منعقدہ ’1378‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہ کے تسلسل میں واقعات غزوہ خندق پر اہل علم حضرات اور سامعین کرام کی کثیر تعداد سے شرف تخاطب حاصل کر رہے تھے۔ بعدہٗ 11-30 بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول اللہؐ حضرت عکاشہ بن محصنؓؓ کے احوال شریف کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ حضرت عکاشہؓ کا شمار سرداروں اور اکابر صحابہ میں ہوتا تھا ۔ دین حق اسلام کی خدمت کے لئے ہر وقت آمادہ و تیار رہا کرتے تھے۔ غزوہ بدر میں شریک تھے۔ انھوں نے مشرکین و کفار سے اس شدت کے ساتھ جنگ کی تھی کہ ان کی تلوار ٹوٹ گئی اس پر حضور اکرمؐ نے انھیں ایک لکڑی سرفراز کی جو ان کے ہاتھ میں پہنچ کر تلوار بن گئی تھی حضرت عکاشہؓ نے اسی تلوار کے ساتھ تمام مشاہد میں مجاہدانہ شرکت کی تھی رسول اللہؐ کے ہمراہ غزوات و مشاہد میں باطل کے خلاف نبردآزمائی کا شرف پانا ان کا مقدر بنا۔رسول اللہؐ نے حضرت عکاشہؓ کو جنت میں بے حساب داخل ہونے کی بشارت دی تھی جس پر وہ ہمیشہ نازاں و مفتخر رہا کرتے تھے۔ڈاکٹر حمیدالدین شرفی نے کہا کہ حضرت عکاشہؓ کی کنیت ابو محصن تھی وہ قریش کے مشہور خاندان بنی عبد شمس کے حلیفوں میں سے تھے کتب سیر و تذکرہ میں ان کا شجرہ نسب اس طرح ملتا ہے عکاشہ بن محصن بن حرثان بن قیس ان کے جد اعلیٰ اسد بن خزیمہ اسدی تھے۔ رسول اللہؐ نے انھیں ایک سریہ پر امیر بنایا تھا۔ عہد خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق ؓ میں بھی حضرت عکاشہؓ کی دین حق کے لئے خدمت و جہاد کا سلسلہ جاری رہا۔ بزاخہ کی مہم میں حضرت خالد ؓ بن ولید کے ہمراہ شریک تھے اور اسی جنگ میں حضرت عکاشہؓ نے جام شہادت نوش کیا۔ حضرت عکاشہؓ رسول اللہؐ کی وفات شریف کے وقت 44 سال کے تھے اور ان کی شہادت 12 ھ میں ہوئی۔ حضرت عکاشہؓ کو اللہ تعالیٰ نے حسن صورت اور کمال وجاہت سے مالا مال کیا تھا۔ ان کا شمار عرب کے حسین ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ اسی طرح حسن سیرت میں وہ اخلاق نبویؐ کا مثالی نمونہ تھے۔ بڑے خدا تر س، دیندار، متقی، پرہیزگار ، جری اور بہادر تھے۔