دوستو! بچے ہمارے مستقبل بنانے والے ، ہمارا سرمایہ، ہمارا سہارا ہوتے ہیں۔ انہیں ہی آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے اور مختلف مہارتوں سے ملک و قوم کی خدمت کرنی ہے۔ والدین اگر آج بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں گے اور انہیں بہتر طریقے سے پوری کرنے کی کوشش کریں گے تو کل ہمارے یہ بچے ہمارے وطن کی سرحدوں کے محافظ بھی ہوں گے ، انجینئر بھی، ڈاکٹر بھی، جج بھی اور ٹیچر بھی ہوں گے، گویا ملک کی ترقی وخوشحالی بھی والدین کی جانب سے بچوں کی تعلیم و تربیت سے جڑی ہے، والدین اگر بچوں کی تعلیم و تربیت بہترین اسلامی سے کریں گے تو ہمارا یہ سرمایہ آگے چل کر ہمارے لیے ہی فائدہ مند ثابت ہوگا۔کسی بھی بچے کی تعلیم و تربیت اس کے والدین کی اہم ترین ذمہ داری ہے جس کو کسی بھی طرح نظرانداز نہیں کیا کیا جاسکتا۔ قرآن پاک میں اللہ کا فرمان ہے :خود کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ) اور حدیث میں ارشادِ رسول ؐ ہے : تم میں سے ہر کوئی اپنی رعیت پر نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا)۔ اس حدیث میں والدین کو نگہبان کہا گیا ہے اور بچوں کو رعیت، مذکورہ آیت اور حدیث دونوں والدین پر بچوں کی تعلیم و تربیت کی جانب توجہ دلاتے ہیں۔ویسے بھی ماں باپ کی طرف سے بچے کو دیا جانے والا بہترین تحفہ اُن کی اسلامی تعلیم و تربیت ہے۔ اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت کے حوالے سے ماں اور باپ دونوں پر بھاری ذمہ داری ہے۔ ماں اور باپ دونوں کو اس معاملے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ان میں سے کوئی ایک یہ ذمہ داری دوسرے کے کھاتے میں ڈال دے اور خود کو بری الزمہ سمجھے ۔آج ہمارے معاشرے کے اکثر والدین یا تو ان معاملات سے پہلو تہی کرتے ہیں یا یہ سمجھ لیتے ہیں کہ بس بچے کو اسکول میں داخل کرادیا اب اس کی تعلیم و تربیت ہوجائے گی گویا والدین اپنی ذمہ داری بس یہیں تک سمجھتے ہیں کہ بچے کو کسی مشہور اسکول میں داخل کرادیا جائے۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ ذمہ دار والدین بچے کو کسی اچھے اسکول میں داخل کرانے کے بعد بھی اپنی ذمہ داریوں نہیں بھولتے بلکہ ان کو برابر نبھاتے رہتے ہیں۔حقیقت یہ ہیکہ اسکول میں داخلہ تو بچے کی تعلیم و تربیت کا آغاز ہے۔ اس مرحلے میں آکر والدین کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ اس سے قبل وہ بچے کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں گھر میں غیر رسمی طور پر جو کچھ بھی کرتے تھے، وہ اسکول کی نسبت زیادہ آسان بھی تھا اور والدین کو اس کی جانچ پڑتال کی ضرورت بھی نہیں ہوتی تھی کیونکہ گھر پر جو غیر رسمی تعلیم دی جا رہی تھی، اس میں وہ خود ٹیچر ہوتے تھے۔ اب اسکول میں داخل کرانے کے بعد بچہ جن ہاتھوں میں دیا گیا ہے، وہ بچے کی تعلیم و تربیت میں کیا رول ادا کررہے ہیں۔ اس کو روزانہ کی بنیاد پر جانچنا ایک نئی ذمہ داری ہے، جس سے سے ان کو عہدہ بر ہونا پڑے گا۔ لہٰذا بچے کو اسکول میں داخل کراکر یہ سمجھ لینا کہ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے ، کسی بھی طرح سے مناسب نہیں۔