بڑے ’بوڑھے ‘ہیں مگر ’بوجھ‘ نہیں

   

Ferty9 Clinic

محمد مصطفی علی سروری

انتھونی مینسنیلی کا (108) سال کی عمر میں 18؍ ستمبر 2019 کو امریکی شہر نیویارک میں انتقال ہوگیا۔ قارئین یوں تو دنیا میں ہر روز ہی سینکڑوں افراد مرجاتے ہیں۔ اس 108 سالہ شخص کی موت کے بارے میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ ہم نے اپنے کالم میں اس کا ذکر کیا؟ دراصل بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی AFP نے انتھونی کے انتقال کی خبر 24؍ ستمبر کو جاری کی۔ دنیا کا اتنا مشہور و معروف ادارہ انتھونی کے مرجانے کی خبر جاری کرتا ہے تو اس کی وجہ خبر کی تفصیلات پڑھ کر سمجھ میں آجاتی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق انتھونی مینسنیلی کی پیدائش اٹلی میں ہوئی تھی اور انہوں نے بعد میں امریکہ کا امیگریشن حاصل کرنے کے بعد وہیں پر کام بھی شروع کیا تھا۔ 108 سال کی عمر میں اس دنیا سے گذرنے والے اس شخص کی ایک اہم بات تھی جس کی وجہ سے اس کی موت کی خبر دنیا کے کئی اخبارات اور ٹیلی ویژن چیانلس پر دکھلائی گئی۔ یہ شخص 108 سال کی عمر میں بھی مرنے سے پہلے کام کرتا رہا۔ یہ بھی جان لیجیے کہ انتھونی کیا کام کرتا تھا۔ انتھونی لوگوں کی حجامت بنانے کا کام کرتا تھا۔ کیونکہ وہ ایک حجام تھا۔ انتھونی نے 1930 میں خود اپنی حجامت کی دوکان کھولی اور 40 برسوں تک اس دوکان پر لوگوں کے بال تراشنے اور کاٹنے کا کام کیا۔ بعد میں انتھونی نے اپنی دوکان بند کر کے دوسروں کے ہاں حجامت بنانے کا کام شروع کیا۔ قارئین اگر ابھی بھی آپ لوگوں کو انتھونی کی کوئی خاص بات نظر نہیں آئی تو یہ بھی پڑھ لیجیے کہ گنیس بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق انتھونی دنیا کا سب سے معمر ترین نائی تھا جو 108 برس کی عمر میں بھی لوگوں کی حجامت بنارہا تھا۔ انتھونی کی بیوی کا (40) برس پہلے انتقال ہوگیا تھا۔ اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق انتھونی روزآنہ اپنی حجامت کی دوکان کو جانے سے پہلے اپنی بیوی کی قبر پر جاتا اور پھر کام کا رخ کرتا۔ آنکھوں پر عینک نہیں، ہاتھوں میں رعشہ نہیں، جوڑوں کا درد نہیں اور کام کے درمیان بار بار بیٹھنے کی عادت نہیں۔ انتھونی کے متعلق نیویارک ٹائمز نے 7؍ اکتوبر سال گذشتہ اپنی رپورٹ میں لکھا کہ دنیا کا یہ معمر ترین نائی ہفتہ میں پانچ دن کام کرتا ہے۔ 12 بجے دن سے لے کر شام آٹھ بجے تک اس کے ہاتھ میں قینچی چلتی رہتی اور پائوں میں پھٹے ہوئے جوتے پہنے انتھونی بس اپنے کام میں ہی لگا رہتا تھا۔ انتھونی نے اپنے انٹرویو میں بتلایا کہ وہ ڈاکٹر کے پاس ضرور گیا مگر لوگوں کے کہنے پر کہ ڈاکٹر کو بتلالو۔ ڈاکٹر جب سنتا ہے کہ مجھے کوئی درد نہیں تو بغیر دوا دیئے مجھے رخصت کردیتا تھا۔
انتھونی عمر کے اس حصے میں بھی کام کیوں کرتا تھا اس سوال کے جواب میں اس نے بتلایا تھا کہ میں اپنے آپ کو مصروف رکھنا چاہتا ہوں۔ انتھونی کا ایک بیٹا بھی زندہ ہے، مگر انتھونی اکیلا رہنا پسند کرتا ہے۔ اپنے بیٹے کے بال بھی خود ہی کاٹتا ہے۔ اپنا کھانا خود بنانا، اپنی گاڑی خود چلانا، اپنے گھر کے سامنے گارڈن کی خود دیکھ بھال کرنا، انتھونی کا معمول تھا۔
قارئین یہ ایک اکلوتے انتھونی کی بات نہیں جب ہم دنیا کے طاقتور ترین عہدے پر فائز رہے شخص جمی کارٹر کی بات کریں تو پتہ چلے گاکہ 95 برس کی عمر میں بھی یہ شخص سماجی اور فلاحی کاموں میں پیش پیش ہے۔ سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی ایک فوٹو مختلف بین الاقوامی میڈیا کے گوشوں نے شائع کی۔ تصویر میں جمی کارٹر اپنے سرپر ٹوپی پہنے ہوئے ہیں۔ ان کی بائیں آنکھ کا نچلا حصہ مار لگنے سے جمنے والے خون سے لال دکھائی دے رہا ہے جبکہ بائیں آنکھ کے اوپر پٹی بندھی ہوئی ہے۔ قارئین ریٹائرمنٹ کی عمر میں دوسروں کے لیے کام کرنے کا جذبہ سابق امریکی صدر جمی کارٹر کو اس قدر پسند ہے کہ وہ اپنے گھر پر گرجانے سے لگنے والے زخم پر 14 ٹانکے لگانے کے بعد دواخانہ سے ڈسچارج ہوتے ہی غریبوں کو گھر بنانے کے فلاحی کاموں سے جڑ گئے ہیں۔
مثالیں صرف امریکہ ہی میں نہیں ملتی ہیں۔ ہمارے ملک ہندوستان میں بھی ایسی بے شمار مثالیں جہاں پر ضعیف العمری کے باوجود ہمارے بزرگ شہریوں نے اپنی قوم کے لیے بڑی خاموشی سے خدمات انجام دی ہیں۔
NRC ایسا ہی ایک مسئلہ جس کو لے کر آج آزاد ہندوستان میں ہر دوسرا شہری پریشان ہے۔ NRC مخفف ہے National Register of Citizen کا ۔ NRC کے مسئلہ کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنے اور اس کو ایک قومی قانونی شکل دینے کے لیے پس پردہ رہ کر اگر کسی ایک شخص نے کام کیا ہے تو وہ پردیپ کمار بھویان ہیں۔ جن کی عمر 84 برس ہے۔

پردیپ کمار بھویان کون ہیں اس کے متعلق اخبار انڈین ایکسپریس نے لکھا ہے کہ وہ 1958ء میں آئی آئی ٹی کھڑگ پور کے پاس آئوٹ گریجویٹ ہیں۔ پردیپ کمار نے ایک غیر سرکاری تنظیم کے توسط سے سپریم کورٹ میں کیس داخل کروایا کہ آسام میں غیر ملکی باشندوں کی اکثریت گھس آئی ہے، اس لیے عدالت حکومت کو NRC کروانے کا حکم دے۔ سال 2009ء میں پردیپ کمار بھویان نے خود عرضی تیار کی اور پھر آسام پبلک ورک (APW) نام کی NGO کے توسط سے عدالت میں مفاد عامہ کی یہ درخواست داخل کروائی۔ مرنال تعلقدار NRC پر کتاب لکھنے والے ایک صحافی ہیں۔ انہوں نے اخبار ہندوستان ٹائمز کو بتلایا کہ میں نے دیکھا ہے کیسے پردیپ کمار نے آسام میں غیر ملکیوں کا مسئلہ احتجاج سے حل نہ ہونے کے بارے میں سونچا اور اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اپنا وقت نکالا، پیسہ نکالا اور پھر عدالت سے رجوع ہوئے۔ پردیپ کمار بھویان کے متعلق ہندوستان اخبار نے لکھا کہ وہ آسام کے ایک بہترین پرائیویٹ اسکول کے ٹرسٹی ہیں اور NRC کی قانونی لڑائی کو سپریم کورٹ میں لے جانے کے لیے گذشتہ 10 برسوں کے دوران مسلسل جدوجہد کی۔ وکیلوں کی فیس اور ہر پیشی کے وقت دہلی جاکر خود شخصی طور پر مدد کرنا بھی اس میں شامل ہے۔
میڈیا میں جب این آر سی پر بہت کچھ بولا جانے لگا اور لکھا جانے لگاتو آسام پبلک ورک (APW) کے ابھیجیت شرما نے اس بات کا انکشاف کیا کہ NRC پر جو درخواست سپریم کورٹ میں پیش کی گئی وہ ان کے وکیل اروند کمار شرما نے تیار نہیں کی بلکہ پردیپ کمار بھویان نے لکھی تھی۔ اپنے مقصد میں واضح اور اپنے کام سے کام رکھنے والے پردیپ کمار بھویان نے ہمیشہ اپنے آپ کو میڈیا سے دور رکھا اور NRC کی لڑائی کو سپریم کورٹ لے جانے کے لیے اور بھی لوگوں نے تعاون دیا، لیکن پردیپ کمار کا سب سے اہم اور خاص رول رہا ہے۔
ایک اسکول کے 84 سالہ ٹرسٹی نے آسام کے ایک ریاستی مسئلے کو لے کر سپریم کورٹ میں ایسے پیش کیا کہ آج پورے ملک میں ہر کوئی اس مسئلہ پر سیاست کر رہا ہے۔ صرف مسلمان ہی نہیں دیگر ہندوستانی بھی اس مسئلے سے پریشان ہیں۔
قارئین بزرگ حضرات صرف گھر اور خاندان کا ہی نہیں بلکہ قوم و ملت کا بہترین اثاثہ ہیں۔ باصلاحیت مسلمان بزرگ صرف مسجد کی کمیٹیوں تک نہیں بلکہ مسجدوں سے ہوکر سارے مسلم سماج کے لیے کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔ ہمارے بزرگ اور بڑے لوگ صرف بچوں کا بینک اکائونٹ سنبھالنے کے لیے نہیں ہیں۔ ان لوگوں سے قوم کے نوجوانوں کا ان کے کردار کا بیالنس بھی سنبھالنے کی ذمہ داری لی جاسکتی ہے۔

ہمارے بزرگوں اور معمر شہریوں کی صحت کمزور ہوسکتی ہے۔ لیکن ان کے ارادے اور ان کے تجربوں کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ یہ لوگ سوشیل میڈیا استعمال نہیں کرتے مگر سوشل سائنس سے اچھی طرح واقف ہیں۔ کاش کہ ہم مسلمان اپنے سماج کے ان بزرگ حضرات کی صلاحیتوں سے استفادہ کرتے! جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ان کو نہیں آتا مگر پرانے سے پرانے مسئلہ کو یہ لوگ منٹوں میں حل کرسکتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ مشورہ کرو۔ مشورہ کرنے میں برکت ہے۔ کیا ہم اپنے بڑوں اور بزرگوں سے مشورہ کرنے تیار ہیں۔ ذرا ساتوقف کیجیے۔ غور کیجیے گا اور پھر کوئی فیصلہ کریئے۔
آج کے زمانے میں بوڑھوں اور بزرگوں کو خود احساس ہے کہ ان کا مقام کیا ہے۔ وہ بدلتے ہوئے حالات وواقعات سے خود کو ہم آہنگ کرنے تیار ہیں اور ساتھ ہی اپنا رول اور اپنی ذمہ داری بھی نبھانے بھی آمادہ ہیں۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)٭
[email protected]