بھارت پٹرولیم کو خانگیانے کا عمل شروع

   

سدھارتھ سنگھ
حکومت ہند نے بھارت پٹرولیم کارپوریشن کو خانگیانے کا منصوبہ بنایا ہے، لیکن حکومت کے اس منصوبے کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بولی دہندگان کو شراکت داروں کی تلاش میں کافی جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔ اس معاملے سے جڑے لوگوں کا کہنا ہے کہ بی پی سی ایل کوئی معمولی کارپوریشن نہیں بلکہ اربوں ڈالرس کے عوض یہ کوئی بھی بولی دہندہ اور اس کے شراکت دار حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ مالیاتی جوکھم اور خطرات سے بھری معاملت ہے۔ حکومت کو امید ہے کہ ریفائنر و فیول ریٹیلر بی پی سی ایل کی فروخت ہوتی ہے تو اس سے سرکاری خزانہ اور دوسرے حصہ داروں کے حصے میں تقریباً 13 ارب ڈالرس آسکتے ہیں۔ 13 ارب ڈالرس کوئی معمولی رقم نہیں ہے۔ یہ اتنی رقم ہے کہ اس کے سرکاری خزانہ میں آتے ہی نہ صرف شیئر مارکٹ میں غیرمعمولی اُچھال پیدا ہوگا بلکہ روپئے کی قدر بھی مستحکم ہوگی۔ بہرحال جہاں تک بھارت پٹرولیم کارپوریشن کو خانگیانے کا سوال ہے، اس سلسلے میں تین صنعتی ادارے ویدانتا گروپ، اپولو گلوبل مینجمنٹ اور اسکوارڈ کیپیٹل دلچسپی دکھا رہے ہیں۔ عالمی سطح پر توانائی کی بڑی کمپنیوں اور سیورین و پینشن فنڈس سے ان گروپس کی بات چیت جاری ہے، لیکن یہ تینوں ادارے اب تک شراکت داروں کو قطعیت دینے میں ناکام رہے ہیں۔ اس معاملے سے جڑے بعض لوگوں نے اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے بتایا کہ ابھی بات چیت نجی سطح پر ہورہی ہے۔ ہر بولی دہندہ بی پی سی اے کو حاصل کرنے کا خواہاں ہے لیکن حکومت نے جو قواعد بنائے ہیں، اس سے انہیں سرمایہ مشغول کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ ساتھ ہی اس معاملت میں ایک حصے کی خریداری یا آئیل ریفائنر کی خریداری بہت مشکل امر بن گئی ہے۔ واضح رہے کہ حال ہی میں حکومت نے ٹاٹا گروپ کو ایر انڈیا لمیٹیڈ فروخت کیا ہے۔ اس کے بعد بھارت پٹرولیم کارپوریشن کا نمبر آیا ہے، لیکن اس کی جو قدر و قیمت ہے، اس سے یہی لگتا ہے کہ بولی دہندگان تنہا یہ معاملت نہیں کرسکتے بلکہ انہیں اس میں کئی شراکت داروں کی ضرورت ہے۔ جب سے بی پی سی ایل کو خانگیانے کے منصوبہ کا اعلان ہوا ہے، تب سے بی پی سی ایل کے حصص یا شیئرس کی قدر میں 3.5% کمی آئی ہے اور اس کا ایک شیئر 431.7 روپئے مالیتی ہوگیا ہے، چونکہ بی پی سی ایل کا پرائس ٹیاگ یا قدر بہت زیادہ ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بولی دہندگان کے ساتھ ساتھ حکومت ہند بھی یہی چاہتی ہے کہ رقمی تبادلہ کیلئے تیکنیکی اور مالیاتی طور پر مضبوط کنسورشیم اس میں حصہ لے۔ اس بارے میں وزارت فینانس اور بی پی سی ایل کے ترجمان فوری طور پر تبصرہ کیلئے دستیاب نہیں تھے جبکہ اپولو گلوبل نے کسی بھی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔ اسی طرح ویدنتا گروپ اور ون اسکوارڈ کے نمائندوں نے ای میل کا کوئی جواب نہیں دیا۔ دراصل گرین انرجی کیلئے عالمی دباؤ اور گرین گیاسوں کے اخراج کو کم سے کم کرنے سے متعلق سرمایہ کاروں کے دباؤ کے پیش نظر Fossil Fuels میں بڑے پیمانے پر سرمایہ مشغول کرنے سے مشہور کمپنی پیچھے ہٹ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وباء اور اس کے مرتب ہونے والے اثرات نے بی پی سی ایل کارپوریشن کو خانگیانے کے عمل میں تاخیر کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ عالمی فرمس کی حوصلہ شکنی ہورہی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جاریہ مالی سال میں مارچ کے اوآخر تک مرکزی حکومت بی پی سی ایل میں موجود اپنے 53% شیئرس پوری طرح فروخت کرنے کا مقصد رکھتی ہے جس کیلئے اس نے آئندہ ماہ مالیاتی بولیوں کا منصوبہ بنایا ہے۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ بی پی سی ایل نے اپریل کے اوائل میں اپنے مالیاتی ڈیٹا تک بولی دہندگان کو عملاً رسائی کی اجازت دی، لیکن اس نے چند ایک معلومات کے حصول کے علاوہ دیگر چیزوں میں خاموشی اختیار کی۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بولی دہندگان کو شراکت داروں کے حصول میں آنے والی مشکلات اور بولی دہندگان کے کنسورشیم کو غیریقینی کیفیت کا سامنا ہے ۔ اس کے علاوہ جو عمل ہے، وہ بہت پیچیدہ ہے۔ جس کے نتیجہ میں تاخیر ہورہی ہے۔ فچ ریٹنگ لمیٹیڈ نے پچھلے ماہ اپنے تبصرہ میں یہ کہا کہ ہمارا یقین ہے کہ آنے والے مہینوں میں کووڈ۔19 لہروں کا جوکھم بڑھ جائے گا اور عالمی سطح کی تیل و گیاس کمپنیاں توانائی کی ترسیل پر اپنی توجہ بڑھائیں گی جس کے نتیجہ میں اس شعبہ میں غیریقینی کیفیت پیدا ہوگی۔ آپ کو یہ بتا دیں کہ بھارت پٹرولیم کارپوریشن لمیٹیڈ تین ریفائنریز رکھتی ہے جہاں یومیہ 7 لاکھ بیارل تیل ریفائنڈ کیا جاتا ہے۔ اس کے تقریباً 19 ہزار پٹرول اسٹیشنس اور 6,200 ایل پی جی ڈسٹری بیوٹرس ہیں۔