رام مندر کی تعمیر مکمل … مسجد کا کام شروع نہیں
جنوری میں ہندوتوا کا جشن … مسلمانوں میں بے حسی برقرار
رشیدالدین
لوک سبھا چناؤ کیلئے بی جے پی انتخابی مہم کا 22 جنوری کو آغاز ہوگا۔ ایودھیا میں بابری مسجد کی اراضی پر تعمیر کردہ رام مندر کا افتتاح 22 جنوری کو ہوگا۔ افتتاحی تقریب کو بی جے پی اور سنگھ پریوار کے کامیابی کے جشن میں تبدیل کرنے کیلئے وزیراعظم نریندر مودی ، آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت ، چیف منسٹر اترپردیش یوگی ادتیہ ناتھ کے بشمول سرکردہ ہندوتوا قائدین کو مدعو کیا گیا ہے۔ بی جے پی کو اس لمحہ کا بے چینی سے انتظار تھا اور رام مندر کے نام پر مودی حکومت کی ہیٹ ٹرک کی توقع کی جارہی ہے۔ مودی حکومت کی 10 سالہ کارکردگی نے عوام کو مایوس کردیا تھا اور صرف کوئی جذباتی نعرہ ہی بی جے پی کی ڈوبتی کشتی کو سہارا بن سکتا ہے ۔ رام مندر سے ہٹ کر کوئی اور مسئلہ ایسا نہیں جس کے ذریعہ ہندوؤں کے ووٹ حاصل کئے جاسکیں۔ گزشتہ 30 برسوں سے بی جے پی ایجنڈہ میں تین وعدے شامل تھے اور جب کبھی الیکشن آتا رام مندر ، یکساں سیول کوڈ اور کشمیر کے خصوصی موقف سے متعلق دفعہ 370 کی برخواستتگی جیسے امور پر انتخابی مہم چلائی جاتی۔ بی جے پی ایجنڈہ کے دو وعدوں رام مندر کی تعمیر اور دفعہ 370 کی برخواستگی کی تکمیل ہوچکی ہے۔ یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی پیشرفت کی جارہی ہے اور لا کمیشن کو یہ ذمہ داری دی گئی۔ جو کام اٹل بہاری واجپائی ، ایل کے اڈوانی اور اشوک سنگھل نہ کرسکے ، وہ نریندر مودی نے کر دکھایا۔ اڈوانی نے 6 ڈسمبر 1992 ء کو بابری مسجد شہید کرنے کا کام کیا جبکہ مسجد کی اراضی پر مندر کی تعمیر کا سہرا مودی کے سر جاتا ہے ۔ نریندر مودی نے کشمیر کے خصوصی موقف سے متعلق دفعہ 370 کو ختم کرتے ہوئے جموں و کشمیر کی ریاست کا درجہ ختم کردیا۔ حساس مسئلہ کشمیر سے چھیڑخانی کسی کے بس کی بات نہیں تھی لیکن مودی نے فرقہ پرستی اور کشمیریوں سے نفرت کا بدترین مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیریوں کو دستوری حقوق سے محروم کردیا۔ اڈوانی نے بابری مسجد کی شناخت کو ختم کیا جبکہ مودی نے سپریم کورٹ سے رام مندر کے حق میں فیصلہ حاصل کرتے ہوئے مسلمانوں کی دعویداری کو سرے سے ختم کردیا۔ بی جے پی ایجنڈہ کی تکمیل کے علاوہ مودی نے طلاق ثلاثہ پر امتناع عائد کرتے ہوئے شریعت میں کھلی مداخلت کی۔ این آر سی ، سی اے اے اور این پی آر کے ذریعہ مسلمانوں کی شہریت کو مشکوک بنانے کی منصوبہ بندی کی جار ہی ہے ۔ ہندوستان کی تاریخ میں نریندر مودی نے کٹر ہندوتوا وزیراعظم کے طور پر اپنی شناخت بنائی اور ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا ان کا اگلا ہدف ہے۔ رام مندر کے لئے مسجد کی اراضی حاصل کرنا کسی بھی نوعیت سے ممکن نہیں تھا اور سپریم کورٹ میں مسلمانوں کا موقف مستحکم تھا۔ جو کام قانونی طریقہ سے ممکن نہیں تھا، نریندر مودی نے عدلیہ کو اپنے حق میں کرتے ہوئے فیصلہ حاصل کرلیا ۔ بابری مسجد اراضی مقدمہ میں سپریم کورٹ کا فیصلہ دنیا میں عدلیہ اور انصاف رسانی میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جہاں ثبوت اور گواہوں کے بابری مسجد کے حق میں دلائل کے باوجود فیصلہ رام مندر کے حق میں سنایا گیا ۔ دنیا کا یہ پہلا فیصلہ ہوگا جو کسی طبقہ کی آستھا کی بنیاد پر سنایا گیا ہو۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی زیر قیادت پانچ رکنی بنچ نے اعتراف کیا کہ مندر توڑ کر مسجد تعمیر نہیں کی گئی۔ مسجد میں غیر قانونی طریقہ سے مورتیاں رکھی گئیں۔ اتنا ہی نہیں سپریم کورٹ نے بابری مسجد انہدام کو بھی غیر قانونی تسلیم کیا۔ مسلمانوں کے حق میں واضح ثبوت اور دلائل کے باوجود عدلیہ نے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے آستھا کی بنیاد پر مسجد کی اراضی مندر کے حوالے کردی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے معاملہ میں عدلیہ کے اختیارات کا استعمال جائز ہے تو پھر دیگر مذاہب کے امور میں اس طرح کے اختیارات کا استعمال کیوں نہیں ہوتا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ مسلمان متحد نہیں ہیں اور انتشار نے انہیں کمزور کردیا ہے۔ دنیا صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے ۔ مودی حکومت سکھوں اور عیسائیوں کے کسی مذہبی معاملہ میں مداخلت کر کے دکھائے۔ عدلیہ بھی ایسی ہمت اور خصوصی اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی۔ آخر ہندوستان میں مسلمان اس قدر بے وزن کیوں ہوچکے ہیں کہ ہر کوئی کھلونا بنائے ہوئے ہے۔ الغرض بابری مسجد کی شہادت کے 27 سال بعد سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا اور 4 سال میں رام مندر تیار ہوچکی ہے جس کا افتتاح لوک سبھا انتخابات سے عین قبل کیا جارہا ہے ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر ایودھیا میں مسجد کے لئے پانچ ایکر اراضی الاٹ کی گئی تھی لیکن آج تک ایک اینٹ بھی نہیں رکھی گئی۔ انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن کو تعمیری کاموں کی ذمہ داری دی گئی لیکن فنڈس مہیا نہیں کئے گئے اور اراضی کے ڈیولپمنٹ چارجس ادا کرنے کیلئے رقم نہیں ہے۔ چار برسوں میں حکومت کو بھی مسجد کی تعمیر کی فکر نہیں ہوئی۔ اگر مودی حکومت کو عدلیہ کا احترام عزیز ہوتا تو مندر کے ساتھ مسجد کا بھی 22 جنوری کو افتتاح کیا جاتا۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس اور تمام مذاہب کے احترام کی باتیں محض زبانی اور عام جلسوں کی جملہ بازی ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کو ہندو ووٹ بینک کی فکر ہے اور مسجد کی عدم تعمیر کے ذریعہ خود کو ہندوتوا کے علمبردار کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے ۔ بابری مسجد کی اراضی مندر کے لئے حوالے کرنے والے سپریم کورٹ کو چاہئے کہ وہ صبر و تحمل اور خیرسگالی کا مظاہرہ کرنے والے مسلمانوں کے جذبات کی فکر کرتے ہوئے مسجد کی تعمیر کے بارے میں حکومت سے وضاحت طلب کرے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ لوک سبھا انتخابات تک بھی مسجد کے تعمیری کاموں کا آغاز نہیں ہوگا تاکہ جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کو مطمئن کیا جاسکے۔
مسجد کی اراضی رام مندر کیلئے حوالے کرنے والے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ میں تین ججس کو ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت کی جانب سے انعام دیا گیا ہے ۔ اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کو راجیہ سبھا کی رکنیت دی گئی جبکہ جسٹس اشوک بھوشن کو ریٹائرمنٹ کے تین ماہ بعد نیشنل کمپنی لا اپیلیٹ ٹریبونل کا چیرپرسن مقرر کیا گیا۔ پانچ رکنی بنچ کے واحد مسلم جج جسٹس عبدالنذیر کو سبکدوشی کے ایک ماہ بعد آندھراپردیش کا گورنر مقرر کیا گیا۔ بنچ میں شامل جسٹس ایس اے بوبڈے نے سبکدوشی کے فوری بعد ناگپور پہنچ کر آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کی تھی جبکہ جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ آج سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدہ پر فائز ہیں۔ عدلیہ کی جانب سے مخالف فیصلہ کے باوجود مسلمانوں نے غیر معمولی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندوستان میں امن و امان کو بگڑنے نہیں دیا لیکن افسوس مسلمانوں کی خیر سگالی اور خاموشی کو ان کی کمزوری سمجھا جارہا ہے۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ ہندوستانی مسلمان قومی سطح پر مخلص اور دیانتدار قیادت سے محروم ہیں۔ سیاسی اور مذہبی دونوں محاذوں پر کوئی بھی جماعت یا تنظیم یہ دعویٰ کرنے کے موقف میں نہیں کہ وہ ملک کے تمام مسلمانوں کی نمائندہ ہے۔ گزشتہ 9 برسوں میں مودی حکومت اور جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کی من مانی اور مسلم دشمن سرگرمیوں کے باوجود قومی سطح پر مسلمانوں کی آواز اثر انداز نہیں ہوسکی۔ دراصل سنگھ پریوار نے منصوبہ بند طریقہ سے مسلم قیادتوں کو مسلمانوں کی نظروں میں مشکوک بنادیا اور مخلص قائدین گوشہ گمنامی میں چلے گئے۔ بعض دیگر مسلم قیادتوں کو اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کی فکر رہی ، لہذا وہ مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کا خون اس قدر سستا ہوچکا ہے کہ وقفہ وقفہ سے کسی نہ کسی علاقہ میں ماب لنچنگ کے ذریعہ مسلمانوں کو ہلاک کرنے کی خبریں موصول ہورہی ہیں۔ گزشتہ دنوں دسہرہ کے موقع پر اترپردیش میں ایک مسلمان کو ہجوم نے ہلاک کردیا۔ مسلمانوں کی جان و مال اور شریعت پر حملے کے باوجود بے حسی میں کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی۔ آخر وہ دن کب آئے گا جب مسلمان اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کریں گے ۔ مسلمانوں کی بے حسی کے نتیجہ میں بی جے پی رام مندر کی تعمیر کو لوک سبھا چناؤ میں ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کرے گی۔ ملک میں مسلمانوں کی آبادی اگر مخالف بی جے پی متحدہ ووٹنگ کا فیصلہ کرلے تو مودی کا تیسری مرتبہ اقتدار کا خواب چکنا چور ہوسکتا ہے۔ کانگریس زیر قیادت اپوزیشن اتحاد انڈیا سے ملک کو امید ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات میں بی جے پی اور نریندر مودی سے عوام کو نجات دلائے گا۔ اپوزیشن اتحاد کی بڑھتی مقبولیت سے بی جے پی بوکھلاہٹ کا شکار ہے ۔ پانچ ریاستوں کے مجوزہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شکست طئے دکھائی دے رہی ہے اور یہ نتیجہ ملک میں بی جے پی اور فرقہ پرست طاقتوں کے زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ندیم شاد نے کیا خوب کہا ہے ؎
تاریخوں کو دیکھو جاکر میرا بھی گھر نکلے گا
بھارت کی بنیاد میں میرے نام کا پتھر نکلے گا