بھارت کے رتن ڈاکٹر ایم ایم تقی خاں کو بھارت رتن کیوں نہیں؟

   

محمد ریاض احمد
حیدرآباد فرخندہ بنیاد کو اس بات کا اعزاز حاصل رہا ہیکہ اس کے دامن میں ایسے عظیم شخصیتوں نے جنم لیا ہے جنہوں نے اپنے اخلاق و کردار اپنی علمی لیاقت اپنی غیر معمولی صلاحیتوں اپنے علمی و سائنسی کارناموں کے ذریعہ آخری سانس تک اپنے وطن عزیز کی خدمت کی اور اسی سرزمین میں سپرد خاک ہوئے۔ ان شخصیتوں نے کبھی صلہ کی تمنا کی اور نہ ہی کبھی ان کے ذہن و گمان میں یہ خیال تک آیا کہ کوئی ان کی ستائش کرے گا، حکومتیں انہیں اعزازات انعام و اکرام سے نوازے گی۔ اس کے برعکس یہ ایسی شخص رہی جنہوں نے ہمیشہ اپنی اختراعی صلاحیتوں ایجادات و دریافتوں کے ذریعہ حکومتوں کو نوازا، عوام کو اپنی محنت اپنی شخصیت کے ثمرات عطا کئے۔ ملک کی ترقی و خوشحالی کو یقینی بنانے اپنی زندگیاں صرف کردیں لیکن افسوس صد افسوس کے ہماری بے حس حکومتیں اور غافل حکمرانوں نے ملک و قوم کی خدمت کرنے والوں کو بری طرح نظرانداز کیا۔ خاص طور پر ان سائنسدانوں کو نظرانداز کیا گیا جنہوں نے ملک کو سائنس و ٹکنالوجی اور سائنسی تحقیق کے شعبہ میں دنیا کے چنندہ ملکوں کی فہرست میں لا کھڑا کیا۔ ایسے ہی عظیم شخصیتوں اور سائنسدانوں میں ڈاکٹر مرزا محمد تقی خاں المعروف ایم ایم تقی خاں بھی شامل ہیں جنہوں نے 5 اپریل 2024 کو جمعۃ الوداع کے مقدس دن 93 سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ پروفیسر ڈاکٹر ایم ایم تقی خاں اور ان کی اہلیہ پروفیسر ڈاکٹر بدر النساء (بدر تقی خاں) کے بارے میں بلا جھجھک یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر کمسٹری (کیمیا) سے جڑی شخصیتوں اساتذہ اور سائنسدانوں کا ذکر ان دونوں کے بغیر نامکمل رہے گا۔ پروفیسر ڈاکٹر ایم ایم تقی خاں کی پیدائش 3 نومبر 1931کو حیدرآباد میں جاگیرداروں اور نوابوں کے خاندان میں ہوئی۔ ان کے والد نواب حبیب اللہ خاں مرحوم نے اپنے فرزند دلبند کی تعلیم پر خصوصی توجہ مرکوز کی۔ ایم ایم تقی خاں کے بچپن کا ہم جائزہ لیں تو پریوں کی کہانی والا معاملہ نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر ان کی ابتدائی تعلیم اس دور کے مشہور و معروف مفید الانام ہائی اسکول میں ہوئی۔ یہ اسکول اب بھی کام کررہا ہے حالانکہ اس کی عمر بھی 143 سال ہوگئی ہے۔ (1880 میں اس کا قیام عمل میں آیا تھا) اسکول کے دور سے ہی ہونہار طالب علم تقی خاں کو سائنسی علوم بالخصوص کیمسٹری سے بہت دلچسپی رہی جس میں مفید الانام بوائز ہائی اسکول کے کمسٹری ٹیم مسٹر ناگا سوامی کا اہم کردار رہا، وہ کلاس میں کیمیائی تعامل (Chemical Reaction) کا عملی مظاہرہ کرتے تھے۔ ان تجربات سے تقی خاں اس قدر متاثر ہوتے کہ اپنی دیوڑھی جاکر کیمیائی تجربات کرنے لگتے۔ والد نے جب دیکھا کہ ان کا سپوت کمسٹری میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہا ہے تب انہوں نے اپنی دیوڑھی کے ایک حصہ میں کمسٹری کی لیباریٹری قائم کردی۔ اس طرح ننھے تقی خاں کو کمسٹری میں آگے بڑھانے اور عالمی سطح پر ایک سائنسداں کی حیثیت سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچانے میں ان کے والد نواب حبیب اللہ خاں، کمسٹری ٹیچر مسٹر ناگا سوامی اور دیوڑھی میں قائم کمسٹری لیاب کا اہم کردار رہا۔ اگر ہم پروفیسر ڈاکٹر ایم ایم تقی خاں کے سائنسی کارناموں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے ہندوستان میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور ہندوستانیوں کو آیوڈین کی کمی سے ہونے والی مختلف بیماریوں سے بچانے کے ساتھ ساتھ ایسی بے شمار انگلستانی ریاستوں کو گلستان میں تبدیل کرنے میں ناقابل فراموش اصول ادا کیا جہاں کی بنجر زمین پر کسی بھی قسم کی کاشت کرنے کا تصور بھی محال تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر ایم ایم تقی خاں کے کارناموں کے بارے میں آپ کو یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ملک میں Reverse Osmosis Technology کو فروغ دیا۔ آیوڈین سے بھرپور کائی Algae کی کاشت کا عمل شروع کیا اور اس سے آیوڈین سے بھرپور نمک Iodezed Salt بنایا جس کے نتیجہ میں ناگالینڈ، میزورام اور دوسری شمال مشرقی ریاستوں میں عوام کو زبردست فائدہ ہوا کیونکہ ان علاقوں میں نمک میں آیوڈین نہ ہونے کی وجہ سے لوگ تھائیرائیڈ اور دوسرے امراض کا شکار ہو رہے تھے۔ اس بارے میں آگے کے سطور میں ہم آپ کو بتائیں گے۔ ڈاکٹر ایم ایم تقی خاں اور نمک کا ایسا لگتا ہے کہ گہرا تعلق رہا ہے جیسا کہ ہم نے آپ کو سطور بالا میں بتایا ہیکہ ان کی پیدائش 3 نومبر 1931 کو ہوئی حسن اتفاق دیکھئے کہ اس سے دیڑھ سال قبل یعنی 12 مارچ 1930 کو بابائے قوم مہاتما گاندھی نے ہندوستان میں حکومت برطانیہ کی جانب سے کسانوں پر نمک ٹیکس عائد کئے جانے کے خلاف نمک ستیہ گرہ شروع کی اور انہوں نے سابر متی آشرم تا ڈانڈی احتجاجی مظاہرین کی قیادت کی اور سمندر کے کھارے پانی سے نمک کی تیاری کرتے ہوئے قانون نمک کو توڑا۔ اس تحریک کے 14 سال بعد ایم ایم تقی خاں کی مہاتما گاندھی سے ملاقات ہوئی اور اس ملاقات نے نوجوان تقی خاں کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ آپ کو بتادیں کہ پروفیسر تقی خاں نہ صرف ملک بھر کی بلکہ دنیا کی باوقار یونیورسٹیز میں لکچرس دینے مقالہ پیش کرنے اور مختلف شعبوں میں پی ایچ ڈی اسکالرس کی رہنمائی کے لئے مدعو کئے جاتے تھے چونکہ انہیں مسلسل طیاروں میں سفر کرنا پڑتا تھا اس لئے ان کے دوست احباب فلائنگ خاں بھی کہا کرتے تھے۔ پروفیسر تقی خاں اور ان کی اہلیہ بدرالنساء امریکہ میں بڑی آرام دہ و پرتعیش زندگی گذار سکتے تھے لیکن انہوں نے اپنے وطن عزیز میں رہ کر اس کی خدمت کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس بارے میں خود انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ پی ایچ ڈی کی تکمیل کے بعد وہ امریکہ میں پرکشش تنخواہ پر کام کرکے آرام دہ زندگی گذارسکتے تھے لیکن انہوں نے مہاتما گاندھی سے ملاقات میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک میں رہ کر ملک کی خدمت کریں گے۔ پروفیسر صاحب کے مطابق انہوں نے گاندھی جی سے دریافت کیا تھا کہ کیسے انہیں تحریک آزادی میں مدد کرنی چاہئے؟ مہاتما گاندھی نے یوں جواب دیا تھا ’’میں چاہتا ہوں کہ ہندوستان کی نئی نسل سخت محنت کرے، بہترین تعلیم حاصل کرتے ہوئے آپ اپنے ملک کی خدمت کرسکیں گے‘‘ چنانچہ 15 سال کی عمر میں تقی خاں نے گاندھی جی سے جو وعدہ کیا اسے ایک ماہر تعلیم ایک پروفیسر ایک سائنسداں کی حیثیت سے ملک کی خدمت انجام دیتے ہوئے پورا کیا۔ جیسا کہ ہم نے آپ کو بتایا کہ ایم ایم تقی خاں نے نظام کالج سے بی ایس سی کیا۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے 1952 میں کیمسٹری میں ایم ایس سی کرنے کے بعد کلارک یونیورسٹی میساچوٹس امریکہ سے پروفیسر Ac Martell کی رہنمائی میں غیر نامیاتی کیمیا میں پی ایچ ڈی کی۔ ان پر قدرت کا خاص کرم تھا جس کے نتیجہ میں انہوں نے بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کیں۔ کم عمری میں کمسٹری کے پروفیسر بنے۔ شعبہ کمسٹری عثمانیہ یونیورسٹی کے صدر پائیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ کی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دیں۔ ان کی رہنمائی میں 70 اسکالرس نے پی ایچ ڈی کی تکمیل کی اور 70 Patents رجسٹر کروائے گئے۔ انہیں کیمسٹری کے تئیں ان کے شوق بلکہ جنون کے لئے Chemestry Man of India کہا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر ایم ایم تقی خاں کے کم از کم 300 انتہائی معلوماتی مقالہ جات قومی و بین الاقوامی جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔ ان کی کتاب Homogenous Catalysis By Metal Complexes میں شائع ہوچکی ہے۔ انہوں نے ڈائرکٹر CSMCRI نیشنل لیباریٹری بھوانگر گجرات مشیر برائے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن و ڈی ایس ٹی، مرکزی حکومت کے واٹرمشن و ویسٹ لینڈ ڈیولپمنٹ پروگرام کے رکن کی حیثیت سے جو نمایاں خدمات انجام دی ہیں وہ ایک طرح سے ملک و قوم پر ان کا احسان ہے لیکن وہ ہمیشہ ان کاموں کو ملک و قوم کے تئیں اپنے فرائض قرار دیا کرتے تھے۔ 2004 میں انہیں نظام کالج کے بورڈ آف گورنرس میں بھی شامل کیا گیا تھا۔ انہیں کئی ایک قومی و بین الاقوامی ایوارڈس سے بھی نوازا گیا جن میں FNASC, FNA, FRSC, ACS, HASC وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے انہیں نیشنل سائنٹسٹ اور قومی پروفیسر ہونے کا اعزاز عطا کیا۔ وہ ٹیکساس A&M یونیورسٹی امریکہ کے وزیٹنگ پروفیسر بھی رہے۔ ایمیبرئل کالج لندن کے ممتاز وزیٹر اور خصوصی مدعوئین میں بھی شامل رہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ پروفیسر بدر النساء سے ان کی شادی کا معاملہ بھی بڑا دلچسپ رہا۔ دونوں کمسٹری کے اسٹوڈنٹس تھے تقی خاں ٹاپر رہے اور دوسرا مقام حاصل کرنے والی کوئی اور نہیں بلکہ بدرالنساء تھیں۔ بعد میں وہ مسابقت محبت میں تبدیل ہوئی اور دونوں کی شادی ہوگئی۔ پروفیسر بدرالنساء عثمانیہ یونیورسٹی ویمنس کالج حیدرآباد کی پرنسپل اور عثمانیہ یونیورسٹی کمسٹری ڈپارٹمنٹ کی صدر بھی تھیں۔ اس جوڑے کی 6 بیٹیاں ہیں جس میں ڈاکٹر زہرہ رضوی نیونیٹالوجسٹ امریکہ، ڈاکٹر شہر بانو محسن سینئر سائنٹسٹ، نسرین زیدی کمسٹری ٹیچر، ڈاکٹر نرجس عسکر سینئر کیمسٹ اینڈ بزنس ڈیولپمنٹ مینجر لریزال، فاطمہ رضوی بائیومیڈیکل ڈیوائس انجینئر اور کلثوم علی خاں بزنس مینیجمنٹ شامل ہیں۔ 1967-1994 ڈاکٹر ایم ایم تقی خاں عثمانیہ یونیورسٹی کمسٹری ڈپارٹمنٹ کے سربراہ رہے۔ اسی دوران نظام کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور اس مدت میں اپنی چار کتابیں شائع کروائیں۔ نظام کالج میں انہوں نے Bio Organic Chemistry کا نیا کورس متعارف کروایا۔ پی جی سنٹر ورنگل میں پوسٹ گریجویٹ پروگرام شروع کیا جو بعد میں کاکتیہ یونیورسٹی میں تبدیل ہوا۔ اس کی سنٹرل گورننگ باڈی کے لئے بھی پروفیسر صاحب کو نامزد کیا گیا تھا۔ شریمتی اندرا گاندھی ڈاکٹر تقی خاں کی صلاحیتوں کی متعارف تھیںچنانچہ انہوں نے ہی پروفیسر صاحب کو 1982 میں سنٹرل گورنمنٹ کے واٹر مشن کا رکن نامزد کیا۔ انہیں انڈین نیشنل سائنس اکیڈیمی، وی نیشنل اکیڈیمی آف سائنس، واٹر ریسورس اینڈ اریڈ زون اکیڈیمی، رانل سوسائٹی آف کمسٹری یو کے، امریکن کمیکل سوسائٹی اور ہنگری کی اکیڈیمی آف سائنس کی فیلوشپ بھی حاصل رہی۔ حالیہ عرصہ کے دوران INSA نے کئی جلدوں پر مشتمل ایک کتاب شائع کی جس میں Vedic Period سے لے کر موجودہ دور میں ہندوستان کی سائنسی ترقی کا احاطہ کیا گیا۔ مونوگراف آف کمسٹری میں پروفیسر ایم ایم تقی خاں کے کام ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔ تقی خاں نے اندرا گاندھی کے 5 نکاتی پروگرام کے تحت ملک میں عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے گجرات اور راجستھان کے صحرائی علاقوں کو گلستان میں تبدیل کیا۔ ناگالینڈ کے لوگوں نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے یہ کہتے ہوئے قبائیلی لڑکی سے شادی کروانے کی پیشکش کی تھی کہ ہم نے آپ کا نمک کھایا ہے لیکن کسی بھی حکومت اور حکمراں کو بھارت کے اس رتن کی خدمات کا شائد ابھی تک اندازہ نہیں ہوا ورنہ وہ اس قابل تھے کہ ان کے نام کے ساتھ بھارت رتن ضرور جڑا رہتا۔ بہرحال 8 مئی کو نظام کالج میں نظام کالج و مدرسہ عالیہ انجمن طلبائے قدیم نے ایک تعزیتی جلسہ کا انعقاد کیا جس میں انجینئر محمد ایوب مجاہد کے مطابق اہم شخصیتوں نے شرکت کی۔
mriyaz2000yahoo.com