پی چدمبرم ۔ سابق مرکزی وزیر داخلہ
آر ایس ایس سربراہ مسٹر موہن بھاگوت کے پاس ٹائمنگ کا غیر معمولی احساس ہے وہ مسلسل بولے نہیں جاتے بلکہ کبھی کبھی ہی وہ خطاب کرتے ہیں لیکن اپنے خطاب کے لئے جس دن اور وقت کا وہ انتخاب کرتے ہیں وہ یقینا شاندار ہوتا ہے وہ شائد کافی سوچ سمجھ کر ہی وقت دن اور مقام کا انتخاب کرتے ہیں اور اس طرح اپنے خطاب کو پراثر بنانے میں وہ کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔ جہاں تک راقم الحروف کا سوال ہے میں نے ان کا خطاب نہیں سنا بلکہ ان کے انگریزی ترجمے پڑھے ہیں، بہت سے لوگ ایسے ہمیں جو بڑی سختی کے ساتھ ان کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتے لیکن کوئی بھی اس بات سے اتفاق نہیں کرسکتا کہ مسٹر موہن بھاگوت کی تقاریر سب کی توجہ حاصل کرتی ہیں بالخصوص سال 2014 کے بعد ان کے الفاظ کو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سرکاری الفاظ کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ آر ایس ایس جیسی تنظیم کی نوعیت اور ساخت کے ساتھ ساتھ سر سنگھ چالک یا سربراہ کے طور پر ان کا مقام و مرتبہ ہے۔ ایسا سمجھا اور مانا جاتا ہے کہ سر سنچالک کو آر ایس ایس میں مکمل اختیار حاصل رہتا ہے۔ اس لئے مسٹر موہن بھاگوت کی تقاریر کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ ان کی جو تقاریر ہیں ان میں سے بعض ایسی ہیں جنہیں یقینا سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے۔ راقم ذیل میں اس کے بارے میں بتایا ہے :
ٹھنڈی ہوا: لوک سبھا انتخابات کے نتائج کا اعلان کیا گیا اس کے فوری بعد جون 2024 میں مسٹر بھاگوت نے ایک خطاب کیا جس میں خاص بات ان کی ایک نصیحت تھی (شائد انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی اور امیت شاہ کی جوڑی کو یہ نصیحت کی تھی) کہ غرور و تکبر چھوڑ دو اور شائستگی پر عمل کرو۔ لوک سبھا انتخابات کے بعد یہ مسٹر موہن بھاگوت کا پہلا عوامی خطاب تھا جس میں انہوں نے کہا کہ
انتخابی تقاریر و بیانات جس میں دروغ گوئی اور نازیبا زبان استعمال کی گئی دراصل اُس شائستگی کی خلاف ورزی کی گئی جس پر فریقین سے توقع کی جاتی ہے، انتخابات میں ہر سیاسی جماعت سے اور اس کے قائدین سے یہی توقع کی جاتی ہیکہ وہ انتخابی مہم کے دوران اپنی تقاریر اور خطاب کے ساتھ ساتھ بیانات میں شائستگی کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے۔ فریقین سے یہ سمجھنے کی توقع کی جاتی ہے کہ آپ کا مخالف کوئی مخالف نہیں ہے بلکہ وہ تو صرف ایک مخالف و متضاد نقطہ نظر کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہیں حریف کی بجائے اپوزیشن کہو اور ہمیں اپوزیشن کی رائے کا احترام بھی کرنا چاہئے۔
ایک سچا سیوک وقار (مریادا) کو برقرار رکھتا ہے اس کے پاس غرور و تکبر (اہنکار) نہیں ہوتا یہ کہنے کے لئے کہ میں نے یہ کام کیا ہے میں نے وہ کام کیا ہے (یعنی شیخی نہیں بگھارتا)۔ موہن بھاگوت کی اس تقریر کو بڑے پیمانے پر مودی اور ان کی انتخابی مہم کی طرف اشارہ سے تعبیر کیا گیا۔ موہن بھاگوت کی دوسری تقریر جولائی میں ہوئی جس میں مسٹر بھاگوت کا یہ جملہ بہت زیادہ شہرت اختیار کرگیا کہ ایک شخص سپرمیان بننا چاہتا ہے پھر ایک دیو اور پھر بھگوان بننا چاہتا ہے۔ اگر ہم مسٹر موہن بھاگوت کے اس خطاب پر غور کریں تو اچھی طرح سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے مسٹر نریندر مودی کے اس دعوے کو ایک طرح سے واضح طور پر مسترد کردیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کی پیدائش حیاتیاتی نہیں ہے، اگر مسٹر مودی حیاتیاتی پیدائش (انسانوں کی طرح پیدائش) سے انکار کرتے تو اس کا مطلب یہ ہیکہ مسٹر بھاگوت یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ مسٹر مودی ایک خط عبورکرچکے ہیں۔
ایک سردلہر : ۔ مسٹر موہن بھاگوت نے تیسری تقرار 12 اکتوبر 2024 کو وجئے دشمی کے موقع پر کی اور انہوں نے اپنے خطاب میں اگلے سال یعنی 2025 میں آر ایس ایس کے اپنے قیام کے سو سال پورے ہونے سے متعلق خیالات ظاہر کئے، میں نے اس تقریر کے انگریزی متن کا مطالعہ کیا جو (انڈیا ٹائمز ڈاٹ کام) میں شائع ہوا، مجھے ان کے اس خطاب پر مایوسی ہوئی کوئی حیرانی نہیں ہوئی، حیرت اس لئے نہیں ہوئی کیونکہ مسٹر بھاگوت نے آر ایس ایس کے قیام کے اغراض و مقاصد کی یاددہانی کروائی، ان کا خطاب الفاظ اور جملوں سے بھرا ہوا تھا انہوں نے اپنی تقریر میں بار بار دھرما، تہذیب و تمدن، شخصی و قومی کردار، نیکی اور سچائی کی فتح اور عزت نفس جیسے الفاظ استعمال کئے۔ انہوں نے خطاب میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازعہ (اسرائیل۔ فلسطین جنگ) پر بھی بات کی لیکن اسرائیل کے فضائی و زمینی حملوں میں زائد از 43 ہزار فلسطینیوں کے شہید ہونے کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔ انہوں نے جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات پر بات کی لیکن افسوس کہ نو منتخبہ حکومت سے نیک تمناؤں کا اظہار نہیں کیا۔ موہن بھاگوت نے اپنی تقریر میں منی پور کے حالات کا ذکر تو کیا لیکن صرف اتنا کہا کہ منی پور کے حالات پریشان کن ہیں۔ موہن بھاگوت کی مابقی تقریر ایک طرح سے مودی کی تقریر جیسی تھی انہوں نے یہ بتایا کہ ہندوستان کس طرح ایک مضبوط و مستحکم ملک بنا۔ ان کے خیال میں آج دنیا پورے احساس و جذبہ کے ساتھ عالمی اخوت کو قبول کررہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عالمی سطح پر کس طرح ہندوستان کی شبیہ بہتر ہو رہی ہے۔ اس کی طاقت اس کی شہرت اور عالمی سطح پر اس کا موقف مسلسل بہتر ہوتا جارہا ہے چونکہ ہندوستان بڑی تیزی سے ترقی کررہا ہے ایسے میں ہندوستان کو غیر مستحکم کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش ہو رہی ہے۔ ایسے ممالک جو خود کو لبرل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں دوسرے ملکوں پر حملے کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کررہے ہیں وہ ان ملکوں کی جمہوری طور پر منتخبہ حکومتوں کو غیر قانونی اور پرتشدد طریقوں سے زوال سے دوچار کررہے ہیں جبکہ دروغ اور جھوٹ کے سہارے ہندوستان کی شبیہ کو جان بوجھ کر خراب کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ مسٹر بھاگوت نے سنگین الزامات کو ثابت کرنے والے کوئی ثبوت و شواہد پیش نہیں کئے۔ بنگلہ دیش کا حوالہ دیتے ہوئے مسٹر موہن بھاگوت نے پرزور انداز میں کہا کہ وہاں ہندوؤں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ موہن بھاگوت کی تقریر ایسا لگتا ہے کہ بولنے والا فرقہ وارانہ فسادات و تنازعہ کا جواز پیش کررہا ہے۔ مسٹر بھگوت نے اپنی تقریر میں جو خیالات ظاہر کئے جس سوچ و فکر کامظاہرہ کیا وہ ہندوستان میں مسلمانوں و دلتوں، امریکہ میں سیاہ فام باشندوں، ماقبل عالمی جنگ جرمنی میں یہودیوں، اپنے ہی ملک میں فلسطینیوں غرض اکثریت کے ہاتھوں ستائی گئی یا ستائی جارہی ہر اقلیت کی حالت زار پر روشنی ڈالنے کے لئے استعمال کی جاسکتی ہے کیونکہ آج کی دنیا میں اکثریت، اقلیتوں اور خواتین کے لئے خطرہ بنی ہوئی ہے۔ ویسے بھی دیکھنے والوں کی نظر میں کون جارح اور کون متاثر ہے یہ سب سے اہم سوال ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آر ایس ایس نے جدید سیاسی زبان بھی اچھی طرح سیکھ لی ہے تب ہی تو مسٹر بھاگوت لبرل، ریاست، بیداری، تہذیب، مارکسٹاور متبادل سیاست جیسے الفاظ استعمال کرنے لگے ہیں۔ ہاں بھاگوت نے مودی کی طرح شہری نکسل، ٹکڑے ٹکڑے گینگ جیسے غیر شائستہ الفاظ استعمال نہیں کئے جبکہ بہار عرب کا حوالہ دیا اور سوال کیا کہ ہمارے پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں حالیہ عرصہ کے دوران کیا ہوا اور ہندوستان بھر میں اسی طرح کی کوششوں کے خلاف انتباہ بھی دیا۔