محمد جعفر
عالمِ اسلام میںجتنے بھی عظیم انسان پیدا ہوئے اُن کی زندگی کے حالات کا مطالعہ کرنے پر پتا چلتا ہے کہ اُن لوگوں کی سوانح عمری ایک دوسرے سے مشابہت رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد اُن کو اولیاء سے ملتی رہی۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں ایسی عظیم ہستیوں کو پیدا کیا جو ملت میں پھیلی سماجی، اخلاقی، معاشی، اقتصادی کمزوریوں کو دور کرنے میں اپنی عمر یں صرف کردیں۔ ایسی ہی نابغۂ روزگار ہستیوں میں قابلِ ذکر شخصیت نواب بہادرِ یارجنگ ؒ کی ہے۔ قوم کے اس سپوت نے اپنی مختصر زندگی میںوہ کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیںکہ جن کی مثال نہیں ملتی۔ جاگیردار گھرانے میںپیدا ہونے کے باوجود بہادرِ یارجنگؒ نے اس نظام کو ختم کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ بہادرِ یارجنگ نے اپنی تمام زندگی قوم و ملّت کے لیئے وقف کردی تھی۔
کہتے ہیں کہ جو بچہ دُنیا میں پیدا ہوتا ہے وہ بطنِ مادر کو چاک کر کے پیدا ہوتا ہے، لیکن جو مُصلِح قوم ہوتا ہے یا اَللہ سُبحانہٗ تعالیٰ جس بچے کو مبلغِ دین بنانا چاہتا ہے وہ فلک کا پیٹ چیر کے پیدا ہوتا ہے۔یہ وہ حقیقت یا روایت ہے جو نواب بہادر ِیار جنگؒ پر صادق آتی ہے۔ بہادرِیار جنگؒ 1905ء میں ایک صوم وصلواۃ کے پابند گھرانے میں پید اہوئے۔ اِبتدائی تعلیم محلے چنچلگوڑہ کے جید عالمِ دین و مفسِرقرآن علامہ شمسیؒ سے حاصل کی اور پھر مدرسہ دارلعلوم‘ جو اب سٹی کالج ہے ‘ میں اپنی پڑھائی مکمل کی۔ قرآن وحدیث کی تعلیم جو کچھ بھی علامہ شمسیؒ سے حاصل کی تھی وہی بہادرِ یار جنگؒ کی کردار سازی کا باعث بنی۔ بچپن سے ہی بہادر ِیارجنگؒؒ کو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ و سلم سے والہانہ عشق تھااور سونے پہ سہاگہ مولانا رومؒ کی شاعری تصوف کی راہ میں مثلِ خضرؑ ثابت ہوئی۔ علامہ اقبالؒ کے اشعار کی تشریح بہادر ِیارجنگؒؒ کا کردار کرتا رہا۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ عشق نے بہادر ِیارجنگؒکو ایک عظیم مفکرِ قوم اور مردِ مجاہد بنا دیا۔ شاعرِ مشرق علامہ ٔ اقبالؒ سے آپ بہت متاثر تھے۔ علامہ اقبالؒ کے کلام نے آپ میں مِلّت کا جذبہ اِس حدتک پید اکیا کہ آپ دنیا کے مسلمانوں میںقائدِ ملت کی حیثیت سے مقبول ہوگئے۔
اللہ تعالیٰ نے بہادر ِیارجنگؒؒکو وہ فنِ خطابت سے نوازا کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ بہادر ِیارجنگؒؒ کی تقریر سُننے لوگ دور دراز مقامات سے سفر کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ کی تقریر کے دوران موسلا دھار بارش شروع ہوگئی تمام سامعین بارش میںبھیگتے ہوئے تقریر سُن رہے تھے جب نواب بہادر ِیارجنگؒؒ نے محسوس کیا کہ لوگ بھیگ رہے ہیں تو آپ نے بھی پنڈال سے باہر آکر بارش میںبھیگتے ہوئے تقریر جاری رکھی۔ یہ بات یا مثال آج کل کے کسی رہنمائے قوم میں نہیں دیکھی جاتی اور نہ دیکھی جائے گی۔ بہادر ِیارجنگؒؒ اپنی تقاریر میں اقبالؒ کے اشعار کثرت سے پیش کیا کرتے تھے اور وہ اشعار اس قدر بر محل ہوا کرتے تھے کہ جیسے اقبالؒ نے وہ اشعار اسی موقع کے لئے کہے ہوں۔ یہاں یہ کہنا مشکل ہے کہ علامہ اقبالؒ نے بہادر ِیارجنگؒؒ کی و جہہ سے شہرت پائی یا یہ کہ بہادر ِیارجنگؒؒ کی مقبولیت میں علامہ اقبالؒ کی شاعری کا عمل دخل ہے۔ میری نظر میں دونوں ایک دوسرے کے لیئے لازم و ملزوم کی طرح ہیں۔ یہ عشقِ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ایسا چہرہ ہے جس کا ایک رُخ اقبالؒ کی شاعری سے چمکتا ہے تو دوسرا رُخ بہادر ِیارجنگؒکی خطابت سے منور و تاباں ہے۔
مولانا خواجہ حسن نظامی نے 13؍مارچ 1933ء کو بہادر یار جنگ کا علامہ اقبالؔ سے ان الفاظ میں تعارف کروایا ’’اگر آپ بادشاہ ہیں تو یہ آپ کے سپہ سالار ہیں۔ اگر آپ شمع ہیں تو یہ آپ کے پروانے ہیں۔اور اگر آپ دانا ہیں تو یہ آپ کے دیوانے ہیں۔‘‘ جب بہادر یار جنگ رخصت کے لئے کھڑے ہوئے اور علامہ سے مصافحہ کے لیئے اُنھوں نے ہاتھ بڑھایا تو اقبالؔ نے ان کے ہاتھ کومضبوطی سے تھام لیا۔ اور فرمایا ’’وعدہ کرو کہ ملّت کی خدمت کے لیئے اپنے آپ کو وقف کردوگے۔‘‘ بہادر یار جنگ نے کہا کہ ’’آپ اسے مصافحہ رخصتی کہئے یا عہدِ خدمت، میںتو اس کو بیعت کہتا ہوں، بیعت جو ایک پیر ِ مرد نے ایک جوان رعنا سے لی، گویا شیخ وقت نے سالک طریقت کو رسم و راہ منزل سے باخبر کردیا۔
بہادر یار جنگؒ کی زندگی اقبالؔ کے مردِ مومن کی مکمل تفسیر تھی۔ بہادر یارجنگ نے اقبالؔ کے نظریات پر ملّتِ اسلامیہ کی سیاست کی بنیاد رکھی۔ وہ اپنی جادو بیان تقریروں میں اقبالؔ کے آتشیں افکار کی گرمی سے قوم میں حوصلہ اور جذبہ پیدا کرتے اور غلاموں کے لہو کو سوزِ یقین سے بدل دیتے۔ تب ہی تو کنجشک فرومایہ شاہین کے مقابل ہوئے۔ اقبالؔ کو اُنھوں نے نہ صرف پڑھا اور سمجھا بلکہ اُن کے کلام و پیام کی روح کو اپنے اندر جذب کرلیا تھا۔ اقبالؔ کے نزدیک علم و فراست اپنی تمام خوبیوں کے باوجود اُس وقت تک بے قیمت ہیں جب تک ان کا حامل تیغ و سپر سے بھی آراستہ نہ ہو۔
بہادر ِیارجنگؒؒ کی فکر کے دائرے کا مرکز فرقہ واریت نہیں بلکہ کلمۂ حق تھا۔یہی وجہہ ہے کہ وہ دنیا کے تمام مسلمانوں کے قائد تسلیم کیئے جاتے ہیں۔ یہاں پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یاد آرہی ہے کہ جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام کو بُلا کر کہتا ہے ائے جبرئیلؑ میں فُلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تم بھی اُس سے محبت کرو۔ جبرئیلؑ فرشتوں کے پاس آکر کہتے ہیں ائے فرشتو اللہ سبحانُہٗ تعالیٰ اورمَیںفلاںبندے سے محبت کرتے ہیں تم بھی اس سے محبت کرو اور اِس طرح تمام فرشتے عالمِ بالا سے زمین پر تشریف لاتے ہیں اور اُس بندے کی محبت مومن اور مسلمانوں کے دل میںڈال دیتے ہیں اِسطرح وہ بندہ مخلوق میں مشہور و مقبول ہوجاتا ہے۔ بہادر ِیارجنگؒؒ کی زندگی کا مطالعہ کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ یہ حدیث اُن پر صد فیصد پوری اُترتی ہے کیونکہ 39 سال کی زندگی میں، بے شک، جس میں دورِ طفلی اور دورِ جوانی بھی شامل ہیں، 25سال کے دور میں قوم کی اس قدر خدمت کرنا اِنسان کیلئے مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔ حیدرآباد دکن میں مجلس اتحادالمسلمین قائم کرنا، مسلم لیگ میں ایک فعال رُکن کی حیثیت سے کام کرنا، خاکسار تنظیم سے وابستہ رہنا اور اِن سب کے علاوہ جدوجہد آزادی میںبڑھ چڑھ کے حصہ لینا تمام عالم کے مسلمانوں کو کلمۂ حق پر ایک جگہ جمع کرنا مسلم ممالک کا سفر کرنا ضرورت پڑنے پر محمد علی جناح قائد اعظم کی تقاریر کا فی البدیہہ ترجمہ کرنا یہ ایسی باتیں ہیں جن کو سُن کر سر دُھننے کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان میں بھی آپ کو بہت ہی قدر و منزلت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، بڑے پیمانے پر جلسوں کے ذریعہ آپ کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے۔
اگر بہادر ِیارجنگؒ کچھ سال اور حیات رہتے تو آج مسلمان جس زبوں حالی کا شکار ہے وہ نہیں رہتی بلکہ ہر شعبۂ حیات میں مسلمان کامیاب و کامراں ہوتے۔ بہادر ِیارجنگؒکی خدمات کو کوئی مسلمان فراموش نہیں کرسکتا۔ مگر افسوس کہ آجکل کے قائدین اُن کا پیغام آنے والی نسلوں کو پہنچانے میںتساہل سے کام لے رہے ہیں۔جناب سمیع اللہ سمیع کے ان اشعار پر اس مضمون کو مکمل کرتا ہوں …
اِک جگہ مِلّت کو لانے میں سبھی ناکام تھے
کر دِکھایا آپ نے تنہا بہادر یارجنگ
مِٹ نہیں سکتا کبھی بھی صفحۂ تاریخ سے
نقش ایسا آپ نے چھوڑا بہارد یار جنگ