بدری رائنا
بہار اسمبلی انتخابات بالکل قریب ہیں اور اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو غریبوں پر توجہ دینے کے لئے 15 منٹ کا وقت ملا اور وہاں فضائی سروے بھی کیا۔ ساتھ ہی نومبر کے اواخر تک غریبوں میں کچھ اضافی راشن تقسیم کرنے کا اعلان بھی کیا۔ نریندر مودی نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان تمام ہندو تہواروں کے حوالے دیئے جو الیکشنس تک وقفہ وقفہ سے آئیں گے جن میں چھٹ پوجا بھی شامل ہے لیکن اس میں بھی کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ انہوں نے بہار کے حوالہ سے جب بات کی تو عید یا گرو پوربھ یہاں تک کہ کرسمس کا بھی حوالہ نہیں دیا جو دسمبر میں منایا جائے گا۔ تقریباً 3 ماہ تک خاموشی چھائی رہی اور اس دوران بہار کے یہ غریب عوام قومی شاہراہوں پر بنا غذا، پانی، ادویات یا پاکٹ منی (جیب میں رقم) کے بغیر پھنسے رہے یہاں تک کہ انہیں سرکاری حمل و نقل کی سہولت سے بھی محروم رکھا گیا۔ اس کے باوجود بہار کے انقلابیوں کو یہ یاد دلایا گیا کہ وزیر اعظم ان کا خیال رکھتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ آخر پی ایم کیرس فنڈ کا کیا ہوا؟ کس نے اس فنڈ میں رقم جمع کروائی اور وہ فنڈ کہاں گیا؟ ایسا لگتا ہے کہ پی ایم کیرس فنڈ کی آڈٹ کو ممنوع قرار دیا گیا۔ چیف منسٹر بہار نتیش کمار نے رائے دہندوں کو خاص طور پر بہار کے انقلابیوں سے ربط بنائے رکھنے کی خاطر ٹوئٹس بھی کئے اور بہار میں بی جے پی یونٹ کو یہ کام حوالہ کیا گیا کہ جب تک ریاست میں رائے دہی نہیں ہو جاتی وزیر اعظم کی اہمیت و افادیت کے گن گاتے رہیں۔
بہار کی اپوزیشن جماعتوں میں انتخابات سے پہلے ہی اختلافات ابھر آنے کی توقع پائی جاتی ہے اور اس سلسلہ میں جیتن رام مانجھی، اوپیندر کشواہا اور دوسرے چھوٹے گروہ تیجسوی یادو کی قیادت قبول کرنے راضی نہیں ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ راشٹریہ جنتادل کے لیڈر تیجسوی یادو اس اتحاد کی قیادت کریں۔ وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ تیجسوی یادو کو اس اتحاد کی جانب سے عہدہ چیف منسٹری کا امیدوار بنایا جائے۔ جواب میں آر جے ڈی نے بتایا جاتا ہے کہ یہ واضح کردیا ہے کہ قیادت کے مسئلہ پر کوئی گفت و شنید نہیں ہوگی۔ ہر کوئی ایسا لگتا ہے کہ انڈین نیشنل کانگریس اور خاص طور پر راہول گاندھی کی طرف مڑ رہا ہے تاکہ اس مسئلہ کا ایسا حل نکالا جاسکے جو اپوزیشن اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کے لئے قابل قبول ہو۔
تاہم یہاں بنا کسی اختلاف رائے کے یہ کہاجاسکتا ہے کہ صرف ایک ہی شخصیت ہے جو اپوزیشن کو اختلافات کی آگ سے کھینچ نکال سکتی ہے اور وہ شخصیت لالو پرساد یادو کی ہے۔ اب یہ بھی دیکھنا ہے کہ آیا بائیں بازو کی جماعتیں اپوزیشن جماعتوں میں موثر اجتماعیت کا باعث بن سکتی ہیں یا نہیں؟ سب سے اہم اور قابل لحاظ بات یہ ہے کہ ریاست کے غریب یہ نہیں بھول پائے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے لاک ڈاون کے دوران ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ لاک ڈاون کے دوران یہ غریب کئی پریشانیوں و مصائب کا شکار رہے اس دوران انہیں بری طرح نظرانداز کیا گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ان کی جو حالت ہوئی ہے اس سے کیا بہار میں ذات پات کی جو سیاست ہے وہ بدل جائے گی؟ کیا ان غریبوں کی وفاداریاں ختم ہو جائیں گی؟ یا پھر بہار کی سیاست سماجی شناختوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کرنے کے رجحان پر واپس ہوگی؟ اور آیا اپوزیشن کے چھوٹے اور بڑے گروپس پر مشتمل اتحاد اس کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہے گا؟ اور عوام پر یہ واضح کرے گا کہ لاک ڈاون کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے ان کے لئے کچھ نہیں کیا انہیں نظرانداز کردیا۔ ویسے بھی بہار میں روایتی طور پر انتخابات کے دوران یا انتخابات سے پہلے پروپگنڈہ کا بہت زیادہ زور رہتا ہے۔ اب ایک سوال یہ بھی پیدا ہو رہا ہے کہ بہار جیسی ریاست میں الیکشن کمیشن کیسے منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کا اہتمام کرے گی کیونکہ ہندوستان کی دوسری ریاستوں کی طرح یہ ریاست بھی کووڈ ۔ 19 سے متاثر ہے اور انتخابات میں یہ عنصر کیسا کام کرے گا یہ بھی دیکھنا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کووڈ ۔ 19 کا اثر رائے دہی اور نتائج دونوں پر پڑے گا۔ پہلے ہی اپوزیشن جماعتوں بشمول انڈین نیشنل کانگریس کی جانب سے یہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ بزرگ رائے دہندوں کے لئے پوسٹل بیلٹ روٹ اختیار کی جائے گی یا نہیں۔ یہ خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں کہ اس طریقہ کا بیجا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔ یہی کہا جارہا ہے کہ اس ضمن میں الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی بھی فیصلہ تمام جماعتوں سے مشاورت کے بعد ہی کیا جانا چاہئے۔ بہار میں جو کچھ بھی ہوگا اس کے اثرات مغربی بنگال میں ہونے والے اسمبلی انتخابات پر بھی مرتب ہوں گے جہاں امیت شاہ کی زیر قیادت بی جے پی کارکن اقتدار حاصل کرنے کے منتظر ہیں اور بی جے پی نے مغربی بنگال میں عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی جو بھی کوششیں کی ہیں اب اس کے ثمرات حاصل کرنے کے موقع کی تلاش میں ہے۔
ایک بات ضرور ہے کہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے کانگریس بہت بڑا چیالنج نہیں ہے اس کے باوجود یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ کانگریس پوری طرح بے جان بھی نہیں ہوئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے مہینوں میں کانگریس قومی سطح پر اور اس کی حلیف جماعتیں علاقائی سطح پر کیا کرتی ہیں اور ان کے درمیان توازن کیسے برقرار رہتا ہے۔ آیا بہار کے اسمبلی انتخابات سیکوریٹی جماعتوں کے درمیان ایک نئی سیاسی بصیرت کا نقطہ آغاز ثابت ہوں گے یا حسب معمول زوال کی راہ پر گامزن ہوں گی۔