بہار میں تحفظات ، بی جے پی کیلئے مشکلات

   

روش کمار

بہار اسمبلی میں تحفظات کوٹہ کی حد 50 فیصد سے بڑھا کر 65 فیصد کرنے کی تجویز منظور کی گئی ۔ معاشی طور پر کمزور ہونے کی بنیاد پر یعنی معاشی طور پر پسماندگی کی بنیاد پر دیئے گئے 10 فیصد تحفظات کو اگر آپ اس میں شامل کرلیں تو تحفظات کوٹہ کا فیصد ریاست میں 75 فیصد تک پہنچ جاتا ہے ۔ ہندوستان میں تحفظات لاگو ہونے کے بعد تحفظات پر سیاست اور اس کا استعمال پہلی بار ٹھوس شکل میں ہورہا ہے اور اس کی شروعات بہار نے کردی ہے ۔ تحفظات کی آڑ میں بہت سے مشکل سوالوں کو پیچھے رکھا گیا تھا طرح طرح کے تصورات پھیلائے گئے ، پروپگنڈہ کیا گیا ، آبادی کی حیثیت کو کبھی بھی سامنے آنے نہیں دیا گیا یعنی مختلف مذاہب ، مختلف ذات پات کے ماننے والوں کی آبادی کے حقیقی اعداد و شمار عوام کی نظروں سے چھپا کر رکھے گئے اور یہ کہا گیا کہ ایک مخصوص ذات سے تعلق رکھنے والوں کو ہی تحفظات کے ثمرات سب سے زیادہ مل رہے ہیں اور وہ دوسروں کے تحفظات کا کوٹہ بھی ہضم کرتی جارہی ہے دراصل بہار کا ذات پر مبنی سروے اور سماجی سروے دو باتیں واضح کردیتا ہے ۔ پہلی بات تحفظات ،آبادی کے لحاظ سے کم دیئے جارہے ہیں۔ دوسری بات تحفظات ملنے کے بعد بھی سرکاری ملازمتوں میں ان ذاتوں سے تعلق رکھنے والوں کو کم نمائندگی مل رہی ہے ان کی نمائندگی نہیں بڑھی ہے ۔ حال ہی میں پٹنہ کے گاندھی میدان میں ایک لاکھ سے زیادہ اساتذہ کو ملازمتوں کے مکتوب حوالے کئے گئے ، اتنی بڑی تعداد میں سرکاری ملازمتیں دینے کا چلن اور اس کی سیاست 90 کے دہے کے بعد ختم ہوگئی ایک بار پھر سے سیاست میں سرکاری ملازمتیں واپسی کررہی ہیں تو یہی اچھا وقت ہے کہ اس بار صحیح سے تحفظات کی بات ہو آبادی کے حساسب سے ہر ذات کی نماندگی کی بات ہو اور ایسا کرنے کا موقع بہار حکومت نے خود ہی ملک کو میسر کرادیا ہے ۔ سرکاری ملازمتوں میں کمی کے علاوہ یہ بھی ہوا کہ تحفظات کے عہدوں کو پُر کرنے میں طرح طرح کی چالاکیاں کی گئیں ۔ چالاکی کرنے والوں نے سماج اور ملک کا بہت نقصان کردیا اگر تحفظات صحیح طور پر اور وقت پر دیئے جاتے تو تو آج اس کے فائدہ کی بات ہوتی اور اس کا اثر ملک کیلئے بھی اچھا ہوتا نتیجہ بہار کا ذات پر مبنی سروے بتارہا ہیکہ تحفظات کے بعد بھی تحفظات پانے والی ذاتوں کی مناسب نمائندگی یا حصہ نہیں ہے ۔ سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ ان کا حصہ کیوں نہیں ہے ؟ ان کا حصہ دینا چاہئے اور یہ سوال ضرور پوچھا جائے گا اس سروے نے چالاکیوں کا ایک اور بھانڈا پھوڑ دیا ہے ۔ سرکاری ملازمتوں کو غائب کرنے کی مکاری اب کسی بھی حکومت کو مہنگی پڑے گی اور کسی بھی سیاسی جماعت کو بھاری پڑے گی ۔ انہیں حکومت میں ملازمتیں پیدا کرنی ہوں گی ۔ آپ کو یہ بھی یاد کرنا چاہئے کہ سابقہ این ڈی ٹی وی پر ہم نے اپنے پرائم ٹائم میں سرکاری ملازمتوں کو لیکر کتنے ایپی سوڈ پیش کئے ۔ تب سیاسی لیڈروں نے اس سریز کا مذاق اُڑایا ، آج سرکاری ملازمتیں ہر سیاسی جماعت کے انتخابی منشور میں ہے اور وزیراعظم نریندر مودی مکتوب تقررات تقسیم کررہے ہیں ۔ آبادی کے لحاظ سے دیکھئے تو بہار کے اعداد و شمار عدالتوں سے لیکر پالیسی بنانے والوں کی عقلمندی اور حکمت عملی کو بھی چیلنج کرتے ہیں بلکہ پلٹ دیتے ہیں ۔ بہار کی آبادی کا 15 فیصد حصہ دیگر ذاتوں اور اقلیتوں کا ہے ۔ تحفظا کے مسودہ میں بہار حکومت نے لکھا ہے کہ معاشی طور پر کمزور لوگوں کے 10 فیصد تحفظات ریاست میں ان کی آبادی کے فیصد میں 64.5 فیصد کی حصہ داری دکھانا ہے ایسا کیسے ہوسکتاہے کہ 15 فیصد کو 64.5 فیصد کی حصہ داری ملی ہوئی ہے ۔ اس سے تو یہی نظر آتا ہے کہ جو 85 فیصد ہے ان کے تحفظات میں آبادی کے حساب سے حصہ داری بہت کم ہے ۔ بہار کی 13 کروڑ کی آبادی میں بچھڑے اور دیگر پسماندہ طبقات 63 فیصد ہے اس حساب سے تو انہیں تحفظات بہت کم ملے اور اگر اس میں درج فہرست طبقات و قبائیل کو بھی شامل کرلیں تو 85 فیصد آبادی کے پاس کتنے تحفظات ہونے چاہئے ظاہر 50 فیصد تحفظات بہت کم ہے زیادہ ہونا چاہئے۔ بہار کے سروے اور تحفظات کے اعداد و شمار کو او بی سی کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے لیکن ایسا کرنا اس سروے کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا ، نئے تحفظات میں درج فہرست ذاتوں کے تحفظات کو 16 سے بڑھا کر 20 فیصد کرنے کی تجویز سے بہار میں سب سے غریب درج فہرست قبائیل میں 42.70 فیصد غریب ہیں درج فہرست ذاتوں میں 42.70 فیصد لوگ غریب ہیں اور کئی ذاتوں میں غریبوں کا فیصد 53 فیصد سے بھی زیادہ ہے درج فہرست قبائیل کی ہر ذات میں بھیانک غریبی دیکھی گئی جو بتارہی ہے کہ سماج کے اسی حصہ تک سرکاری اسکیمات کے ثمرات کسی بھی شکل میں کم سے کم پہنچا ہے ۔ بہار اسمبلی میں پیش کرنے سے پہلے اس مسودہ کو نتیش کمار حکومت نے اپنی کابینہ میں منظوری دی اس کے ڈرافٹ کو قانونی طور پر بڑی احتیاط سے تیار کیا گیا ہے بتایا گیا ہیکہ آبادی کے حساب سے تحفظات میں کتنی کمی رہ گئی آج بھی سرکاری ملازمتوں میں درج فہرست طبقات و قبائیل اور دیگر ذاتوں کا ان کی آبادی کے لحاظ سے بہت کم نمائندگی ہے اس لئے ضروری ہیکہ پسماندہ طبقات کے تحفظات کو بڑھا کر 18 فیصد انتہائی پسماندہ طبقات کے تحفظات کو بڑھا کر 25 فیصد ، درج فہرست ذاتوں کے تحفظات کو بڑھا کر 30 فیصد اور پسماندہ طبقات کی ترقی کیلئے تحفظات کے کوٹہ میں اضافہ ضروری ہے جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں آپ کو بتایا کہ پسماندہ طبقات کو دیئے جانے والے تحفظات کو بڑھا کر 18 فیصد اور EBC ( انتہائی پسماندہ ) طبقات کے تحفظات کوٹہ کو بڑھا کر 25 فیصد اور ایس سی کے تحفظات کو بڑھا کر 20 فیصد کیا جائے ایسی تجویز پیش کی گئی ہے ۔ نتیش کمار کا کہنا ہیکہ ریاست میں ایس سی آبادی جملہ آبادی کا 19.7 فیصد ہے انہیں16 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد تحفظات ملنا چاہئے یہ سرکاری نوکریوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں بھی تحفظات کی حد بڑھانے کو منظوری گئی ہے ۔ گورنر کی منظوری کے بعد اب اس کی قسمت سپریم کورٹ میں طے ہوگی جہاں پہلے ہی کرناٹک اور مہاراشٹر کے معاملات میں 50 فیصد سے زیادہ تحفظات مسترد کردیئے گئے ہیں مگر اس بار بحث کا رخ بدل جائے گا ۔ بہار اسمبلی میں سرکاری نوکریوں اور تعلیمی اداروں م یں 65 فیصد تحفظات کی تجویز اتفاق رائے سے منظور کی گئی ۔ بی جے پی نے بھی مخالفت نہیں کی ، 9 سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے ذات پات پر مبنی مردم شماری کا فیصلہ کیا گیا مطلب ڈھائی لاکھ کروڑ سے زیادہ اس پر مصارف آتے ہیں،اس کے اور مرکز کو چاہے کہ بہار جو کہ ایک غریب ریاست ہے خصوصی ریاست کا درجہ ایسے مل جائے گا تب ریاست خوشحال ہوگی یہاں کی پسماندگی دور ہوگی ۔ بات ایوان اسمبلی میں نتیش کمار نے کہی ۔ بی جے پی نے بھی بادل نخواستہ اس کی تائید کی ۔ بہرحال سپریم کورٹ میں بہار حکومت کہہ سکے گی کہ اس کا فیصلہ ٹھوس سماجی اور اقتصادی ڈیٹا پر مبنی ہے اور سب کے فائدہ کیلئے ہے ۔ 65 فیصد تحفظات کی تجویز ایک جھٹک میں لیکر نہیں آئی ہے بلکہ اس کیلئے 13 کروڑ آبادی کا سروے کیا گیا دستور کی دفعات 15 اور 16 میں اتباتی اقدامات کیلئے کی جانے والی کوششوں کی بات ہے تو اب تک حقیقی معنی میں تحفظات نہیں ملا ہے جب تک نہیں ملے گا ۔ آبادی کے مختلف حصوں میں ترقی کا توازن برقرار نہیں رہے گا تو پھر دستور کی اس کے حقیقی جذبہ اس کی حقیقی روح میں کیسے عمل آوری ہوگی ۔ بہار سوال کرے گا کہ ریاست میں اعلی ذات کی آبادی 15 فیصد سے کچھ زیادہ ہے مگر اس کے غریب طبقہ کو 10 فیصد معاشی تحفظات ملے ہیں اگر اسے ہی پسماندہ بنالیا جائے تو ان ذاتوں کو اضافی تحفظات دینے سے کیسے روک سکتے ہیں جو آبادی کا 85 فیصد حصہ ہے اس لئے بہار سے چلی یہ بحث اب قومی سطح پر جائے گی اور جو لوگ اسے مسترد کرتے ہوئے ان مشکل سوالات سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں ان کیلئے مشکل ہوگی ۔ تیجسوری یادو کے مطابق حکومت بہار نے دلتوں ، قبائیلیوں کے تحفظات میں بھی اضافہ کیا ہے جبکہ بی جے پی نہیں چاہتی کہ یہ خبریں عوام تک پہنچے ۔ سپریم کورٹ نے مئی 2021 میں مرہٹہ تحفظات کو غیردستوری قرار دیا جب جسٹس اشوک بھوشن کی زیرقیادت بنچ نے کہا کہ مہاراشٹرا میں ایسی کوئی ہنگامی صورتحال نہیں ہے کہ مرہٹہ طبقہ کو اضافی تحفظات فراہم کئے جائیں لیکن اس سپرم کورٹ نے EWS تحفظات اور 103 ویں دستوری ترمیم کو 2 کے مقابلہ 3 سے صحیح اور جائز ٹھہرائی۔