بہار میں حقیقی رائے دہندوں سے شرارت

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

آج کل الیکشن کمیشن کی کارکردگی اُس کی غیرجانبداری پر سنگین سوالا ت اُٹھائے جارہے ہیں ۔ اُس پر یہ بھی الزامات عائد کئے جارہے ہیں کہ وہ حکومت اور حکمراں جماعت کے قائدین کے اشاروں پر ناچ رہا ہے ۔ اگر ہم 1991 ء اور 1996 ء کے درمیان ہوئی رائے دہی کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اُس وقت کے الیکشن کمیشن آف انڈیا اور چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنران کو اس کا کریڈٹ جائے گا جنھوں نے غیرمعمولی انداز میں انتہائی شفاف طریقہ سے اور بالکل غیرجانبدارانہ طورپر رائے دہی کا کامیاب انعقاد عمل میں لایا ۔ چنانچہ مذکورہ مدت کے دوران ملک میں ہوئی آزادانہ و منصفانہ رائے دہی کیلئے الیکشن کمیشن آف انڈیا کو ملک کا سب سے بہترین اور سب سے زیادہ موثر ادارہ کہا جاسکتا تھا ۔ یہاں تک کہ دستوری عدالتوں سے بھی بہتر و اعلیٰ ۔ چیف الیکشن کمشنر ٹی این سیشن کی قیادت میں الیکشن کمیشن کی آزادانہ کارکردگی اس کی دیانتداری اور غیرجانبداری کو عالمی سطح پر بہت سراہا گیا ۔ باالفاظ دیگر ٹی این سیشن کے دور میں تین “I” یعنی انڈی پنڈنٹس ( آزادانہ کارکردگی ) ، انٹگریٹی ( سالمیت ) اور امپارشیلٹی (غیرجانبداری) کو بین الاقوامی سطح پر نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ اس کی ستائش کی گئی ۔ ٹی این سیشن کے بعد جن چیف الیکشن کمشنران نے بڑی دلیری کے ساتھ مضبوطی سے اُن کے اُصولوں کو تھامے رکھا اور تین “I” کے فارمولے کو اپنایا وہ مسٹر ایم ایس گل ، مسٹر جے ایم لنگڈوہ اور مسٹر ٹی ایس کرشنا مورتی ، نوین چاولہ اور مسٹر ایس وائی قریشی شامل ہیں جبکہ دیگر چیف الیکشن کمشنران نے ہچکچاتے ہوئے اقدامات کئے یعنی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران اس طرح کے اقدامات نہیں کئے جس طرح ٹی این سیشن اور اُن کے بعد دو تین چیف الیکشن کمشنران نے کئے تھے ۔ یہاں ایک اور بات بہت اہم ہے ، پچھلے 12 برسوں میں مقرر کئے گئے چیف الیکشن کمشنران کے اقدامات کو آئینی حقوق کی تباہی و بربادی کے روشی میں دیکھا گیا ۔
آزادانہ ادارہ : جہاں تک الیکشن کمیشن آف انڈیا کا سوال ہے یہ ایک آزادانہ اور خودمختار ادارہ ہے ۔ اس کے ابتدائی برسوں میں انتخابات کا انعقاد کوئی بڑا چیلنج نہیں تھا لوگ اکثر مقامی بااثر شخصیتوں یا لیڈروں کی مرضی و منشا کے عین مطابق ووٹ دیاکرتے تھے۔ عوام کے کچھ ایسے گوشہ بھی تھے جنھیں ووٹ دینے کی اجازت نہیں تھی وہ اس قدر غریب اور کمزور تھے کہ شکایت بھی نہیں کرسکتے ۔ اس کے علاوہ ملک کی سب سے قدیم جماعت کانگریس کیلئے کوئی سیاسی چیلنج نہیں تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انتخابات اور انتخابات کا انعقاد 1967 ء کے بعد چیلنج بنے ۔ آپ کو بتادیں کہ 1965 ء اور 2014 ء کے درمیان کی حکومتوں نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کے کام کاج میں مداخلت نہیں کی اور نہ ہی مجھے الیکشن کمیشن کے اُمور میں حکومتوں کی جانب سے مداخلت کئے جانے کے الزامات عائد کیا جانا یاد نہیں ۔ ریاستی اسمبلیوں کے چند انتخابات کے بارے میں یہ الزامات عائد کئے گئے کہ اُن میں دھاندلیوں کا ارتکاب کیا گیا لیکن یہ الزامات مرکز کی حکمراں سیاسی جماعت کے خلاف نہیں تھے بلکہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کی نااہلی کے خلاف تھے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 2014 ء کے لوک سبھاانتخابات آزادانہ اور منصفانہ انتخابات رہے لیکن 2014 ء کے بعد سے جو بھی اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات ہوئے اُن میں بڑے پیمانہ پر دھاندلیوں ، ہیرا پھیری ، نااہلی ، دھوکہ دہی اور بد سے بدتر ہونے کے الزامات عائد کئے گئے ۔
مثال کے طورپر نومبر 2024 ء میں مہاراشٹرا اسمبلی انتخابات میں فہرست رائے دہندگان تنازع کا باعث بن گئی ۔ الیکشن کمیشن اور مرکزی حکومت کے خلاف مہاراشٹرا اسمبلی انتخابات کو لیکر جو الزامات عائد کئے گئے اُن میں پہلا الزام یہ تھا کہ فہرست رائے دہندگان میں ایک بڑی تعداد میں نئے اور حقیقت میں فرضی رائے دہندوں کے نام شامل کئے گئے ۔ دوسرا الزام یہ عائد کیا گیا کہ رائے دہی کا وقت ختم ہونے کے باوجود کافی گھنٹوں تک لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی اور یہ اقدام معمول سے ہٹ کر تھا ۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے مذکورہ دونوں الزامات پر اپنا دفاع کرنے کی کوشش تو کی لیکن اُس کی کوشش ناکام رہی ۔
سالمیت : ایک اور انتہائی متنازعہ ریاستی اسمبلی انتخابات بہار میں ہونے والا ہے اور آئندہ سال مزید انتخابات ہونے والے ہیں۔ بہار ایک تجربہ ہے ، اس ریاست میں اسمبلی انتخابات کو بمشکل چار ماہ رہ گئے ہیں ایسے میں الیکشن کمیشن آف انڈیا نے Special Intensive Rsvision (SIR) یعنی فہرست رائے دہندگان پر خصوصی نظرثانی کاکام شروع کیا ہے جو یقینا معمول سے ہٹ کر ہے جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی کیونکہ عام طورپر فہرست رائے دہندگان سال کے پہلے دن یکم جنوری کو اپ ڈیٹ کی جاتی ہے اور انتخابات کے موقع پر سمری ریویژن یا سمری نظرثانی ہوتی ہے ۔ سمری ریویژن میں نئے اور ایسے ووٹروں کے نام شامل کئے جاتے ہیں جن کے نام درج ہونے سے رہ گئے ، ساتھ ہی ایسے ووٹروں کے نام حذف کئے جاتے ہیں جو فوت ہوچکے ہوں یا جنھوں نے دوسرے مقامات نقل مکانی کی ہو ۔ جہاں تک SIR کا سوال ہے یہ مختلف ہے ۔ یہ موثر طورپر موجودہ فہرست رائے دہندگان کو ختم کردیتا ہے ۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا یہ دعویٰ کررہی ہے کہ SIR ، سال 2003 کی فہرست رائے دہندگان کی بنیاد پر ہے اس کے باوجود یہ صفر کی بنیاد سے شروع ہوتا ہے اور ہر حلقہ اسمبلی کیلئے نئی فہرست رائے دہندگان کی تیاری کا باعث بنتا ہے اور رائے دہندہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوگی کہ یہ ثبوت فراہم کرے کہ وہ پہلے بھی ایک رائے دہندہ تھا اور اگر اُس نے 2020 ء یا 2024 ء کے لوک سبھا انتخابات میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا تو بہار اسمبلی انتخابات 2025 ء میں اپنے حق رائے دہی کیلئے اسے اپنی شہریت کا ثبوت فراہم کرنا ہوگا اور اس عمل کے جو 25 جون سے شروع کیا گیا جو 26 جولائی تک جاری رہنے کی توقع ہے ۔
غیرجانبداری : SIR کی اس مشق یا عمل کا اصل مقصد فہرست رائے دہندگان میں رائے دہندوں کے ناموں کا اندراج نہیں بلکہ نئے ووٹروں کے ناموں کی شمولیت اور اُن کے حق رائے دہی کے استعمال کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنا ہے ۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے فہرست رائے دہندگان میں ناموں کے اندراج کے خواہاں مرد و خواتین کیلئے شہریت کا ثبوت فراہم کرنے کی شرط عائد کی ہے ۔
پاسپورٹ ،برتھ سرٹیفکیٹ یا سرکاری ملازم ہونے آئی ڈی (شناختی کارڈ ) کی بات کرتے ہیں تو یہ دستاویزات بہار کی جملہ آبادی کے صرف 2.4 تا 5 فیصد حصہ کو ہی دستیاب ہیں ۔ سپریم کورٹ نے تاریخی ریمارک میں یہ کہا کہ آدھار کارڈ ، ووٹر آئی ڈی اور راشن کارڈ ایسی دستاویزات ہیں جن کی بنیاد پر فہرست رائے دہندگان میں نام درج کروائے جاسکتے ہیں ۔ جب سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف انڈیا سے سوال کیا کہ ان تینوں دستاویزات کو SIR مقاصد کیلئے کیوں شامل نہیں کیا جاسکتا تو اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔ حیرت اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ریسیڈنسی اور کاسٹ سرٹیفکیٹ آدھار کی بنیاد پر ریونیو آفیسر جاری کرتا ہے جبکہ ریسیڈنسی یا ذات پات کے سرٹیفکیٹس SIR کیلئے جائز ہے اور آدھار ناجائز ۔ SIR کا جو واحد معقول حصہ ہے وہ یہ ہے کہ متوفی افراد اور فہرست رائے دہندگان میں دو دو مرتبہ درج ناموں کو حذف کرنا ہے ۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کے تخمینہ کے مطابق 17.5 لاکھ رائے دہندوں نے ریاست سے نقل مکانی کی ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بہار واپس نہیں آئیں گے ۔ SIR کا عمل دراصل لاکھوں غریبوں ، کمزوروں یا نقل مکانی کرنے والے شہریوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کا گندہ منصوبہ ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 28 جولائی کو سپریم کورٹ کیا فیصلہ دیتی ہے ۔