بہار میں ڈاکٹرس کیوں ڈر رہے ہیں

   

روش کمار
گوتم بدھ نگر کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے بھی ڈاکٹروں اور ہیلتھ عملہ کے غیر حاضر ہونے پر ناراضگی ظاہر کی ہے۔ انہیں وقت پر آنے کا حکم دیا ہے۔ بہار میں سرکاری ڈاکٹروں کا حوصلہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ بہت سے ڈاکٹرس بناء اجازت کے غیر حاضر ہوتے جارہے ہیں۔ اس بحران میں اگر 31 مارچ کو 76 میڈیکل آفیسرس اور 2 اپریل کو 60 میڈیکل آفیسرس کام پر نہیں جائیں گے تو ٹھیک نہیں ہے۔

حکومت بہار نے ایسے 76 میڈیکل آفیسروں سے اندرون تین یوم جواب طلب کیا ہے۔ اس کے علاوہ 120 میڈیکل آفیسروں کے خلاف بھی محکمہ جاتی کارروائی کی جارہی ہے۔ گوتم بدھ نگر کے ضلعی مجسٹریٹ نے بھی ڈاکٹروں اور سبلھ اسٹاف کی غیر حاضری پر ناراضگی ظاہر کی ہے۔ انہیں وقت پر آنے کا حکم بھی دیا ہے۔جب پورا ملک ڈاکٹروں کے ساتھ ہے تو پھر سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹرس کیوں غائب ہو جارہے ہیں۔ ہمیں ان کا حوصلہ بڑھانے کے لئے ایک دن اور تھالی کا پروگرام رکھنا چاہئے۔ دوسرا انہیں درکار طبی آلات کا مسئلہ بھی مسلسل اٹھاتے رہنا چاہئے تاکہ ڈاکٹر جب متاثرہ مریض کے پاس جائیں تو انہیں کوئی خطرہ نہ ہوا۔

آپ دیکھیں گے کہ دیش میں کتنے بڑے ڈاکٹرس ہیں سب کی اپنی ایک شخصیت ہے۔ وہ لوگ بھی ان ڈاکٹروں کے لئے آواز نہیں اٹھا رہے ہیں، ادویات ساز کمپنیاں بھی کسی کام میں نہیں آرہی ہے۔ اسکرال میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا کہ اسپتال ڈاکٹروں کی آواز دبا رہے ہیں۔ انہیں بولنے نہیں دے رہے ہیں یہ تو سب ہی کو سمجھنا ہے کہ ڈاکٹروں کو سیفٹی کٹ چاہئے۔ تب ہی وہ کورونا کے مریض کے قریب جاسکیں گے۔ ورنہ وہ ڈاکٹر کے باعث گڑبڑ کرنے لگیں گے۔ اس سلسلہ پر خاموش رہنا نہ ڈاکٹر کے حق میں ہے یہی مریض کے حق میں بہتر ہے۔ اٹلی میں کورونا کے باعث 80 ڈاکٹروں اور 21 نرسوں کی موت ہوگئی ہے۔ وہاں کے ڈاکٹرس بہت فکرمند ہیں صدمہ میں ہیں۔ اٹلی میں 12000 ہیلتھ ورکروں کا ٹسٹ پازیٹیو آیا ہے۔ سارے ملک کو ملکر ڈاکٹروں کے تحفظ و سیفٹی کے لئے پھر سے بولنے کا صحیح وقت ہے۔

اسٹیٹ کینسر انسٹی ٹیوٹ دہلی حکومت کا ایک اسپتال ہے یہاں کے ڈاکٹر اور 11 نرسیس اسٹاف کو پازیٹیو ٹسٹ آیا ہے۔ اس سے پہلے بھی ایک ڈاکٹر اور 15 نرس اسٹاف آفیسر کا ٹسٹ پازیٹیو آچکا ہے۔ اسی اسپتال کے 19 مریضوں کے بھی نمونے حاصل کئے گئے ہیں اور 45 میڈیکل اسٹاف کو گھروں میں ہی قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔ دہلی میں تاحال 50 سے زائد ڈاکٹر اور ہیلتھ ورکرس متاثر ہوچکے ہیں۔ ممبئی میں بھی ڈاکٹروں اور نرسس کے متاثر ہونے پر اسپتال کو ہی مہربند کیا جاچکا ہے۔ سی آر پی ایف کے ایک ڈاکٹر کا ٹسٹ پازیٹیو آیا ہے۔ انہیں جھجر میں واقع آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسس میں بھرتی کروایا گیا ہے۔ دہلی کے ایک مہاراجہ اگریسن اسپتال کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ ایک سب انسپکٹر کی موت ہوئی ہے جن کا کورونا ٹسٹ پازیٹیو آیا تھا۔ اسپتال نے لاپرواہی سے نعش ورثا کے حوالے کردیا تھا، یہ الزام ہے۔ حال ہی میں ایمس کے ریسڈنٹ ڈاکٹر اسوسی ایشن نے وزیر اعظم کو مکتوب لکھا ہے کہ ان چیزوں کو لیکر سوال اٹھانے پر حکام کا رویہ مثبت نہیں رہتا۔ ایمس کے ریزیڈنٹ ڈاکٹرس اسوسی ایشن نے الزام عائد کیا ہے کہ PPE کٹ کے لئے 50 لاکھ روپے کا فنڈ وزیر اعظم کیرس فنڈ میں بھیج دیا گیا۔ اخبار دی ہندو میں اس تعلق سے خبر شائع ہوئی ہے۔ یہ تو وقت کے حساب سے غلط ہے۔ ڈاکٹرس پی پی ای کٹ کی مانگ کررہے ہیں اس کا پیسہ کسی اور کام میں کیوں جارہا ہے؟

وزارت صحت نے یہ اعداد و شمار فراہم کئے ہیں۔ صرف بہار نے 5 لاکھ پی پی ای کٹ کی مانگ کی۔ آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ہمارے باتیں کتنی کم تیاری ہے۔ 80 لاکھ پی پی ای کے آرڈر سنگاپور کی کمپنی کو دیئے گئے ہیں جو 11 اپریل سے آنے شروع ہوجائیں گے۔ N95 فیس ماسک کا موقف تھوڑا بہتر ہے۔ حکومت اسپتالوں کو 20 لاکھ ماسک دے چکی ہے۔ ہندوستان میں گھریلو طور پر تیار کئے گئے 2.9 N95 ماسک اسپتالوں کو مہیا کرائے جارہے ہیں لیکن جب تک پی بی ای فراہم نہیں کئے جائیں گے ڈاکٹروں اور ہیلتھ ورکرس میں اعتماد پیدا نہیں ہوگا۔
ویسے بھی جب ممبئی کے بی ایم سی نے پرائیویٹ اسپتالوں کے ڈاکٹروں سے جڑنے کی اپیل کی تو بڑی تعداد میں ڈاکٹرس اپنے ناموں کا اندراج کروانے آئے۔ آئیرلینڈ کے وزیر اعظم بھی ایک ڈاکٹر ہیں کورونا کے بحران کو دیکھتے ہوئے انہوں نے اپنا رجسٹریشن کروایا ہے۔ اب وہ ڈاکٹری بھی کریں گے۔