بہترین کی اُمید، عوام کو بدترین کا بھی اندیشہ

   

پی چدمبرم
ایک اور مالیاتی سال شروع ہورہا ہے۔ ایک اور بجٹ آنے والا ہے۔ یعنی ہندوستانی معیشت کیلئے ایک اور اہم سال۔ 2016-17ء سے ہر سال نے حیرانی اور آنسو لائے ہیں۔ 2016-17ء تباہ کن نوٹ بندی کا سال رہا۔ 2017-18ء ناقص جی ایس ٹی اور اس پر عجلت میں عمل آوری کا سال رہا۔ 2018-19ء ایسا سال رہا جب معاشی انحطاط شروع ہوا اور شرح ترقی ہر سہ ماہی مدت میں گرتی گئی (8.0، 7.0، 6.6 اور 5.8 فیصد)۔ 2019-20ء ضائع کردہ سال رہا جب حکومت نے انتباہ پر کان دھرنے سے انکار کیا اور شرح ترقی کو 5 فی صد سے نیچے تک گرجانے دیا۔
نقصان کی شدت
اب یہ کافی واضح ہے کہ
l 2019-20ء جب قطعی اعداد و شمار ترتیب دیئے جائیں گے، 5 فیصد سے کم کی شرح ترقی درج کرائے گا؛
l حکومت کی وصولیات نمایاں گراوٹ کے ساتھ BE سے دونوں بڑے زمروں (خالص ٹیکس آمدنی اور نج کاری) میں کم ہوجائیں گی؛
l مالیاتی خسارہ بی ای نشانہ 3.3 فی صد سے تجاوز کرتے ہوئے 3.8 تا 4.0 فی صد کے قریب رہے گا؛
l مالِ تجارت کے درآمدات اور برآمدات دونوں گزشتہ سال کے مقابل منفی پیش رفت درج کرائیں گے؛
l پرائیویٹ سیکٹر انوسٹمنٹ جس کی Gross Fixed Capital Formation (جی ایف سی ایف) کے ذریعے پیمائش ہوتی ہے، موجودہ قیمتوں کے اعتبار سے تقریباً 57,42,431 کروڑ روپئے (یا جی ڈی پی کا 28.1 فی صد) رہے گا، جس سے سرمایہ کار کی جوکھم مول لینے سے گریز اور عدم آمادگی ظاہر ہوتی ہے؛
l خانگی شعبے کی کھپت سال تمام سست برقرار رہی؛
l زرعی شعبہ بدستور سخت پریشانی میں ہے اور تقریباً 2 فیصد کی شرح ترقی درج کرائے گا؛
l جاب پیدا کرنے والے شعبے جیسے مینوفیکچرنگ، مائننگ اور کنسٹرکشن نے 2019-20ء میں نوکریاں کم کردیئے جو مجموعی روزگار میں کٹوتی کا موجب بنا؛
l بحیثیت مجموعی انڈسٹری کیلئے، اور بالخصوص SME سیکٹر کیلئے قرض میں بڑھوتری گزشتہ سال کے مقابل منفی رہے گی؛ اور
l ختم سال CPI پر مبنی افراط زر زائد از 7 فی صد رہے گا (جس میں فوڈ کا افراط زر زائد از 10 فی صد ہوگا) جو پریشانی میں اضافہ کرے گا جس کا سبب بڑھتی بے روزگاری اور جمود کی شکار اُجرتیں؍ آمدنی ہیں۔
ڈاکٹر اروند سبرامنیم، سابق معاشی مشیر اعلیٰ کے مطابق معیشت ’انٹنسیو کیئر یونٹ‘ میں پڑی ہے۔ نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر ابھجیت بنرجی نے کہا کہ معیشت کی ’کارکردگی خراب‘ ہے۔ ناقدین کے کوئی بھی تاثرات نے ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو فکر میں مبتلا نہیں کیا ہے جو یہی دعویٰ کئے جارہی ہے کہ معاشی اُچھال ’اگلے سہ ماہی‘ میں واقع ہوگا! اوسٹرچ (شترمرغ) جیسے رویہ کی وجہ سے حکومت نے ہر درست اصلاحی اقدام کو مسترد کیا ہے اور اس کے بجائے غلط اقدامات کئے ہیں۔ بطور مثال، اگر ٹیکسوں میں کٹوتی کرنا تھا تو حکومت کو بالواسطہ محاصل میں کٹوتی کرنا چاہئے تھا؛ اس کے بجائے کارپوریٹ سیکٹر کو بڑا تحفہ دے دیا گیا جس کی رقم 1,45,000 کروڑ روپئے ہوئی اور زیادہ سرمایہ کے معاملے میں جواباً حاصل کچھ نہ ہوا۔ حکومت کو چاہئے تھا کہ غریبوں کے ہاتھوں میں کچھ زیادہ رقم رکھتے ہوئے طلب میں اضافہ کرتی؛ اس کے بجائے MGNREGA، سوچھ بھارت مشن، سفید انقلاب اور پردھان منتری آواس یوجنا کیلئے مصارف (BE) میں کٹوتی کردی گئی اور ہوسکتا ہے فی الواقعی مزید کم خرچ کیا جائے گا۔
پی ایم کا بجٹ: وہ کیا کرپائیں گے؟
جب وزیراعظم نے 12 ٹاپ بزنس پرسنس سے (نرملا سیتارامن یا مددگاروں کے بغیر) ملاقات کی، اس سے گھبراہٹ کے ساتھ ساتھ فینانس منسٹر پر اعتماد کا فقدان ظاہر ہوئے۔ میڈیا کی بعض رپورٹس اور بعض شرکائے اجلاس کے اشاروں سے پتہ چلتا ہے کہ حسب ذیل اس بجٹ میں ممکن ہے جو یکم فبروری 2020ء کو پیش کیا جائے گا:
1۔ سالانہ 10 لاکھ روپئے تک کمانے والے افراد کیلئے انکم ٹیکس شرحوں میں کٹوتی۔
2۔ سرمایہ پر طویل میعادی فوائد جو دو سال تک سکیورٹی رکھنے کے بعد حاصل ہوں، ان پر ٹیکس کی برخاستگی یا ٹیکس میں کٹوتی۔
3 ۔ ڈیویڈنڈ ڈسٹری بیوشن ٹیکس کی شرح میں کٹوتی۔
4۔ ڈائریکٹ ٹیکسیس کوڈ متعارف کرانے کا وعدہ۔
5۔ چند شعبوں جیسے کنسٹرکشن کیلئے جی ایس ٹی میں منتخب، مختصر میعادی کٹوتی۔
6۔ پی ایم۔ کسان رقم میں موجودہ 6,000 روپئے سالانہ میں اضافہ اور ؍ یا اسکیم کی استفادہ کنندگان کے مزید زمروں تک وسعت۔
7۔ ٹیکس وصولیات کے مبالغہ آمیز تخمینے یا بھاری قرض کے ذریعے ڈیفنس؛ MGNREGA؛ ایس سی، ایس ٹی، او بی سی اور مائنارٹی اسکالرشپس؛ آیوشمان بھارت (ہیلت انشورنس) وغیرہ کیلئے مصارف میں بڑے پیمانے پر اضافے۔
8۔ طویل میعادی فینانس بالعموم انڈسٹری کو اور بالخصوص SMEs کو فراہم کرنے کیلئے ایک یا دو ڈیولپمنٹل فینانس انسٹی ٹیوشن (DFI) کی تشکیل۔
9۔ بڑے پیمانے پر نج کاری پروگرام اور؍ یا اثاثہ کو رقم میں تبدیل کرنے کا پروگرام جس کا کمتر مقصد وسائل اکٹھا کرنا ہو۔
معیشت بوجھ بن گئی
مذکورہ بالا تمام باتیں حکومت کی سوچ کی مطابقت میں ہیں، جس کا انحصار بھاری طور پر کارپوریٹ سیکٹر پر (فنڈز کیلئے)، متوسط طبقہ پر (ووٹوں کیلئے) اور ہندوستان کے دفاع پر (توجہ ہٹانے کیلئے) رہتا ہے۔ ترکیب و بناوٹ میں اصلاحات کی سوچ کیلئے اس کی قابلیت محدود ہے۔ اس کو اعتماد نہیں کہ بینکنگ سسٹم کریڈٹ فراہم کرے گا۔ اس کی تحفظ پسند لابی کی وجہ سے اس نے ترقی کے انجن کے طور پر کام کرنے والی بیرونی تجارت کو چھوڑ دیا ہے۔ اس کا کوئی ارادہ نہیں کہ اسٹاک مارکیٹس کے افراط کو کم کیا جائے۔ وہ آر بی آئی کے ساتھ اپنے رشتے کی صراحت نہیں کرسکتی اور طے نہیں کرسکتی کہ کس طرح دونوں مل کر مالیاتی استحکام برقرار رکھ سکتے ہیں، ترقی کو فروغ دے سکتے ہیں، اور افراط زر پر قابو پاسکتے ہیں۔
بی جے پی حکومت کی اصل فکرمندی معیشت نہیں، بلکہ ہندوتوا ایجنڈا ہے۔ دوسری طرف عوام معاشی ترقی سے جڑے مسائل پر فکرمند ہیں جیسے مزید نوکریاں، پیدا کنندہ کیلئے بہتر قیمتیں، اجرتیں اور آمدنی، قیمتوں میں متناسب استحکام، بہتر تعلیم اور نگہداشت صحت کی دستیابی، اور بہتر انفراسٹرکچر۔ یہ تکلیف دہ حقیقت ہے کہ عوام کو ایسی حکومت ملی ہے جس نے ہندوستانی معیشت کو ’’عالمی معیشت پر بوجھ‘‘ میں تبدیل کردیا ہے۔ یہی آئی ایم ایف کا مذمتی فیصلہ ہے۔
[email protected]