بہت اونچی عمارت ہر گھڑی خطرہ میں رہتی ہے

,

   

کرناٹک کا غم بھلانے بیرونی تفریح
پارلیمنٹ بلڈنگ … مودی کا ہندوتوا ایجنڈہ

رشیدالدین
جب کسی شخص کو گہرا صدمہ پہنچے ڈاکٹرس اور ماہر نفسیات مقام تبدیل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ نئے ماحول میں صدمہ کو بھلایا جاسکے۔ صدمہ کے اثر کو کم کرنے کیلئے تفریح کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔ غم بھلانے کو غم غلط کرنا بھی کہتے ہیں جس کے کئی طریقے اور رواج ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے کرناٹک کی شرمناک شکست کا غم بھلانے کیلئے بیرونی دورہ تفریح کے انداز میں کیا ۔ گودی میڈیا میں وزیراعظم کے بیرونی دورہ کے موقع پر دن رات جس انداز میں رپورٹنگ کی گئی ، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وزیراعظم سرکاری مصروفیت سے زیادہ تفریحی سرگرمیوں میں دلچسپی دکھا رہے ہیں۔ کرناٹک میں عزت داؤ پر لگانے کے باوجود بی جے پی کو عوام نے جس بے دردی سے مسترد کیا ، اسے سیاسی ماب لنچنگ بھی کہا جاسکتا ہے۔ کرناٹک کا صدمہ کچھ اس قدر شدید تھا کہ اس کا اثر ساری بی جے پی پر دکھائی دیا۔ خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے والوں کے بھی طوطے اڑ گئے۔ غم سے ابھرنے کیلئے نریندر مودی تین ممالک کے دورہ پر روانہ ہوگئے اور وہاں بھی خوب ڈرامہ بازی کی ۔ ملک کی عوام نے بھلے ہی سبق سکھایا ہو لیکن آسٹریلیا میں راک شو کی طرح مودی نے غیر مقیم ہندوستانیوں کے آگے جملہ بازی اور لفاظی کے جوہر دکھائے۔ جاپان میں G-7 سمٹ کے تلخ تجربات کو بھلاکر دنیا کے ایک گمنام ملک پاپوا نیو گینی کے صدر کی جانب سے احترام میں قدم بوسی کو گودی میڈیا اور چاٹوکار اینکرس کے ذریعہ کچھ یوں پیش کیا گیا جیسے امریکہ ، چین ، جاپان یا کسی عالمی طاقت کے سربراہ نے چرن چھوئے ہوں۔ ایک ایسا ملک جہاں ہندوستان کے کسی وزیراعظم نے آج تک قدم نہیں رکھا، جس کا رقبہ ہندوستان کی کسی ریاست سے بھی کم ہوگا اور جس ملک کا نام ہندوستانیوں نے پہلی بار سنا ہوگا ، وہاں کے صدر نے پہلے ہندوستانی وزیراعظم کی آمد پر بصد احترام جھک کر استقبال کیا تو گودی میڈیا نے وشوا گرو (عالمی گرو) کا خطاب دے دیا۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب کسی دبنگ کو برابری کی ٹکر مل جائے تو وہ کمزوروں پر ظلم کرتے ہوئے اپنے دبنگ ہونے کا ثبوت دیتا ہے ۔ اسی طرح عالمی طاقتوں سے تلخ تجربہ کے بعد ایک کمزور ملک کے سربراہ کے احترام کو کارنامہ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ مودی وشوا گرو اس وقت ہوں گے جب وہ چین کے قبضہ سے ہندوستانی زمین کو واپس لیں گے۔ تین ممالک کے دورہ میں کوئی کارنامہ تو انجام نہیں دیا لیکن وطن واپسی پر استقبال کرتے ہوئے بی جے پی نے ایسا جشن منایا جیسے مودی دنیا کو فتح کر کے واپس ہوئے۔ ایک فاتح کمانڈر کی طرح مودی کا استقبال ہوا جبکہ وہ کرناٹک میں شکست خوردہ بی جے پی کے سپہ سالار تھے۔ بی جے پی نے مودی کے استقبال میں وہ سب کچھ کیا جو کرناٹک میں جیت کی صورت میں کیا جاسکتا تھا۔ کرناٹک کی شکست کی خفت مٹانے اور صدمہ کو بھلانے کیلئے ایرپورٹ پر جشن منایا گیا ۔ دراصل بی جے پی نے کرناٹک کی جیت کا جشن منانے کیلئے جو پٹاخے جمع کئے تھے، ان کا استعمال مودی کی وطن واپسی پر کیا گیا تاکہ پٹاخے ضائع ہونے سے بچ جائیں۔ مودی یوں تو 9 برسوں میں انگنت بیرونی دورے کرچکے ہیں لیکن ہر بار وطن واپسی پر جشن نہیں ہوا۔ کرناٹک کی ہار کے سبب مودی پارٹی کارکنوں کے جشن میں شرکت اور خطاب سے محروم رہے۔ لہذا اس کمی کو وطن واپسی کے وقت پورا کردیا گیا۔ وطن واپسی کے ساتھ ہی کہیں کرناٹک کا زخم تازہ نہ ہوجائے ، لہذا پارٹی نے دل بہلانے کے لئے تفریح طبع کا انتظام کردیا۔ جاپان میں G-7 سمٹ کے موقع پر سربراہان مملکت کے درمیان مودی کو یکا و تنہا کرنے کا ویڈیو وائرل ہوچکا ہے۔ صدر امریکہ جوبائیڈن نے مودی سے آٹو گراف مانگا تو یہ احترام نہیں بلکہ سیاسی حربہ تھا۔ صدارتی الیکشن میں غیر مقیم ہندوستانیوں کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے بائیڈن نے آٹوگراف مانگا لیکن اسے مودی کی طاقت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ آٹوگراف کے ذریعہ شخصیت کا اندازہ بھی ہوتا ہے ، لہذا مودی کی حقیقت جاننے کیلئے جوبائیڈن نے دستخط حاصل کئے ہوں گے۔ آسٹریلیا کے سڈنی میں غیر مقیم ہندوستانیوں سے خطاب کے دوران آسٹریلیا کے وزیراعظم اور اپوزیشن کے قائد کی موجودگی کو مودی نے ہندوستان کیلئے کارنامہ اور جمہوریت کا مظاہرہ بتایا۔ نریندر مودی کو آسٹریلیا کی جمہوریت کا تو خیال ہے لیکن ہندوستان میں آپ کا سلوک اپوزیشن کے ساتھ کیا ہے ، اس بارے میں کہنے کی ضرورت نہیں۔ حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تحقیقاتی ایجنسیوں سی بی آئی ، ای ڈی اور انکم ٹیکس کو مخالفین کا ایڈریس دے دیا جاتا ہے۔ یہ تو وہی بات ہوئی جمہوریت بیرونی ممالک میں رہے لیکن ہندوستان میں نہیں۔ سڈنی اسٹیڈیم میں وزیراعظم آسٹریلیا اور اپوزیشن قائد کی شرکت دراصل مودی کے احترام میں نہیں بلکہ الیکشن میں ہندوستانیوں کے ووٹ حاصل کرنے کی چال تھی۔ اچھا ہوا کہ اس مرتبہ مودی نے ’’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘ کی طرح آسٹریلیا میں کوئی نعرہ نہیں لگایا ۔ وطن واپسی پر مودی نے ہیروشیما میں گاندھی جی کے مجسمہ کی نقاب کشائی کو ہندوستان کیلئے باعث فخر قرار دیا ۔ تمام مودی اور گودی میڈیا اور پالتو میڈیا نے تقریر کو لائیو پیش کیا۔ مودی بھاشن اور ایکشن میں جداگانہ ہیں۔ گاندھی کا احترام بھی ملک کے باہر ہے جبکہ ملک میں گاندھی جی کے قاتل نتھو رام گوڈسے کو دیش بھکت کہنے والوں کی تائید کرتے ہیں۔ اگر گاندھی جی کا اتناہی احترام ہوتا تو 28 مئی کو پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح نہیں رکھا جاتا۔ پارلیمنٹ کی عمارت کو گاندھی جی سے موسوم کیا جاتا۔ مودی تو دراصل ہندو راشٹر کے ایجنڈہ پر عمل پیرا ہیں۔ زبان سے گاندھی کی تعریف لیکن پارلیمنٹ کا افتتاح ہندوتوا نظریہ ساز ونائک دامودر ساورکر کے یوم پیدائش پر کیا جارہا ہے ۔ یہ وہی ساورکر ہے جنہوں نے انگریزوں سے 12 مرتبہ معافی مانگی تھی ۔ گاندھی جی کے قاتل گوڈسے کے ساتھ وہ عدالت کے کٹہرے میں موجود تھا۔ گاندھی کے قاتل کی تائید کرنے والے ساورکر کے جنم دن پر پارلیمنٹ کے افتتاح کے ذریعہ ملک کو کیا پیام دے رہے ہیں ۔ مودی کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ ملک کے باہر عزت شیاما پرساد مکرجی اور ساورکر کے نام سے نہیں بلکہ گاندھی جی کے حوالے سے ہے ۔
آسٹریلیا میں نریندر مودی نے مندروں پر حملے پر وہاں کے حکمرانوں سے نمائندگی کرتے ہوئے حملہ کے واقعات کو روکنے کی درخواست کی ۔ مودی کا یہ اقدام یقیناً قابل ستائش ہے کہ انہوں نے مذہبی مقامات کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آسٹریلیا میں مذہبی مقامات پر حملوں سے مودی کو صدمہ پہنچا لیکن ہندوستان میں مساجد اور درگاہوں پر حملوں کے واقعات پر مودی نے مذمت تک نہیں کی۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں ماب لنچنگ کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن نریندر مودی نے ریاستی حکومتوں کو کوئی ہدایت نہیں دی۔ مسلمانوں پر حملوں کے خلاف کوئی مسلم یا عرب ملک اعتراض کرے تو داخلی امور میں مداخلت کا الزام عائد کیا جاتا ہے ۔ رابطہ عالمی اسلامی اور دیگر مسلم تنظیموں نے ہندوستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے پر احتجاج کیا ۔ ہندوستان میں مسلمانوں سے متعلق امور پر تبصرہ کرنا اگر داخلی معاملہ ہے تو پھر مودی نے آسٹریلیا کے داخلی معاملات میں مداخلت کس طرح کی۔ گجرات سے لے کر ماب لنچنگ کے تازہ واقعات تک مودی کی خاموشی دراصل نیم رضامندی کو ظاہر کرتی رہی ہے۔ گجرات فسادات پر بی بی سی کی ڈاکیومنٹری کی نمائش روک دی گئی ۔ حالانکہ یہ ڈاکیومنٹری حقیقی واقعات پر مبنی ہے۔ نریندر مودی نہیں چاہتے کہ ان کی بدنامی کا کوئی سامان ہو۔ اگر اظہار خیال کی آزادی پر یقین ہے تو پھر بی بی سی کے خلاف کارروائی کیوں کی جارہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ آسٹریلیا میں نریندر مودی کا پروگرام مکمل طورپر اسپانسرڈ تھا۔ حکومت کو پروگرام کے اخراجات کے بارے میں وضاحت کرنی چاہئے ۔ اسی دوران کرناٹک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسمبلی کے اسپیکر کے عہدہ پر ایک مسلمان کو فائز کیا گیا ہے۔ کانگریس پارٹی نے اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کی اٹوٹ وابستگی اور مکمل تائید کے جواب میں خیر سگالی کا مظاہرہ کیا ہے۔ کابینہ میں ایک مسلم وزیر کی شمولیت کے بعد اسپیکر کے باوقار عہدہ پر سینئر مسلم رکن اسمبلی کو فائز کیا گیا۔ کانگریس حکومت کو حجاب پر پابندی، حلال گوشت پر پابندی ختم کرنے کے علاوہ مسلم تحفظات کی بحالی کیلئے فوری اقدامات کرنے چاہئے ۔ مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرتے ہوئے کرناٹک میں کانگریس ایک مستحکم حکومت کی قیادت کرسکتی ہے۔ سیاستدانوں کیلئے منور رانا کا یہ شعر کسی پیام سے کم نہیں ؎
بلندی دیر تک کس شخص کے حصہ میں رہتی ہے
بہت اونچی عمارت ہر گھڑی خطرہ میں رہتی ہے