بہت سی کرسیاں اس ملک میں لاشوں پر رکھی ہیں

,

   

بلقیس بانو … مودی کی ریاست میں انصاف کا قتل
روہنگیا کے نام پر پھر سیاست گرم

رشیدالدین
کوئی حکومت ہو یا شخصیت اس پر اعتبار اور اعتماد کیلئے قول اور فعل میں یکسانیت ضروری ہے۔اگر اس میں تضاد ہو تو حکومت اور قائدین پر عوام کا بھروسہ دیرپا قائم نہیں رہتا۔ ظاہر ہے کہ جب عوام کا کسی پر سے بھروسہ اٹھ جائے تو زوال اس کا مقدر بن جاتا ہے ۔ زبان پر قائم رہتے ہوئے کئی حکمرانوں نے حکومت کی بھی پرواہ نہیں کی ۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے ، جہاں ایفائے عہد کیلئے قربانیاں دی گئیں اور عہد شکنی سے گریز کیا گیا ۔ آج صورتحال بدل چکی ہے ۔ ووٹ حاصل کرنے کیلئے ناقابل عمل اعلانات اور خوش کن وعدوں کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ الیکشن کے اختتام اور اقتدار ملتے ہی قائدین کے تیور بدل جاتے ہیں۔ یوں تو ہم نے سیاسی پارٹیوں اور قائدین کی وعدہ خلافی کے کئی مظاہرے دیکھے ہیں لیکن ان تمام میں وزیراعظم نریندر مودی نے سب کا ریکارڈ توڑ دیا ہے اور ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا جاسکتا ہے ۔ وعدہ خلافی اور اعلانات سے انحراف تو ہے لیکن ساتھ میں ایک خطرناک تیور بھی ہے۔ مودی جس کسی سے ہمدردی کریں، اس کے برے دن شروع ہوجاتے ہیں۔ مودی جو بات کہیں اس کا الٹا اثر ہوتا ہے ۔ اچھے دن کا وعدہ برے دن میں تبدیل ہوگیا ۔ ہر سال ایک کروڑ روزگار کا وعدہ تھا لیکن ملک میں بیروزگاری بڑھ گئی۔ مودی نے مہنگائی پر قابو پانے کا وعدہ کیا تھا لیکن آج کیا صورتحال ہے ، اس بارے میں کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہجومی تشدد میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی مودی نے ایک مرتبہ مذمت کیا کی ، ملک بھر میں مسلمانوں کو ٹارگٹ کرنے کے واقعات میں تیزی پیدا ہوگئی ۔ الغرض مودی کی کسی سے ہمدردی دراصل مظالم میں اضافہ کا اشارہ ہوتا ہے ۔ تازہ ترین معاملہ میں نریندر مودی نے یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ سے خطاب کرتے ہوئے خواتین کی توہین کے خلاف آواز اٹھائی۔ مودی کی خواتین سے ہمدردی کا پیام پوری طرح عوام تک نہیں پہنچا تھا کہ مودی کی آبائی ریاست گجرات میں بلقیس بانو کیس کے 11 مجرمین کی سزا معاف کرتے ہوئے جیل سے رہا کردیا گیا ۔ ایسا محسوس ہوا کہ وزیراعظم نے صبح میں لال قلعہ سے گجرات حکومت کو ہدایت دی جس پر چند گھنٹوں میں عمل کردیا گیا۔ 2002 ء گجرات فسادات میں بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت ریزی اور خاندان کے 7 افراد کا بیدردی سے قتل کردیا گیا تھا ۔ سی بی آئی تحقیقات کے بعد عمر قید کی سزا سنائی گئی لیکن 14 سال کی قید کی تکمیل کے بعد رہا کردیا گیا ۔ گجرات حکومت کا دعویٰ ہے کہ 11 مجرمین کے جیل میں بہتر کردار اور چال چلن کو دیکھتے ہوئے سزا معاف کی گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان کا کردار اور چال چلن بہتر ہوتا تو وہ یہ گھناؤنی حرکت نہ کرتے جس کے لئے انہیں عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔ گجرات کے متاثرین آج بھی انصاف سے محروم ہیں۔ انصاف کیلئے عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں اور متاثرین کیلئے کام کرنے والے جہد کاروں کو جھوٹے الزامات کے تحت جیلوں میں بند کر دیا گیا ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ کانگریس قائد احمد پٹیل کے انتقال کے بعد ان پر گجرات فسادات کی سازش کا الزام تھوپ دیا گیا ۔ گجرات کے قاتل یا تو آزاد گھوم رہے ہیں یا پھر جیلوں میں سزا معاف کئے جانے کے منتظر ہیں۔ گجرات فسادات میں کون کون ملوث ہیں، یہ دنیا جانتی ہے لیکن سپریم کورٹ نے نریندر مودی کو کلین چٹ دے دی ہے۔ عدالت بھلے ہی کلین چٹ دے دے لیکن امریکہ نے مودی کو ویزا سے انکار کرتے ہوئے طویل عرصہ سے پابندی کو برقرار رکھا تھا۔ ظاہر ہے کہ مودی کے فسادات میں رول کے بارے میں امریکہ کے پاس کچھ تو ثبوت ہوگا جس کی بنیاد پر وقت کے چیف منسٹر کو ویزا دینے سے انکار کیا گیا ۔ احسان جعفری نے مدد کیلئے مودی کو فون کیا تو کیا جواب ملا تھا ، اس کی تفصیلات ذکیہ جعفری نے بارہا بیان کی ہیں۔ بلقیس بانو کیس کے مجرمین کی رہائی سے گجرات میں انصاف رسانی کی صورتحال واضح ہوجاتی ہے ۔ لال قلعہ سے خواتین کے تحفظ اور احترام کی بات کرنے والے وزیراعظم اپنی ریاست کے فیصلہ پر خاموش ہیں۔ قول اور فعل میں تضاد کی ایک حد ہوتی ہے۔ نریندر مودی کو حقیقی معنوں میں خواتین سے ہمدردی ہو تو مرکز سے مداخلت کرتے ہوئے سزا کی معافی کو ختم کریں۔ مودی کو ذکیہ جعفری ، بلقیس بانو ، عشرت جہاں اور تیستا سیتلواد سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ انہیں سمرتی ایرانی کی توہین کی فکر ہے۔ مودی کی نظر میں سمرتی ایرانی اور بی جے پی کی خواتین ہی ہمدردی کی مستحق ہیں۔ پارلیمنٹ میں سونیا گاندھی کے خلاف بی جے پی ارکان کی نعرہ بازی اور حملہ کی کوشش پر مودی خاموش رہے۔ پرینکا گاندھی کے ساتھ پولیس کی بدسلوکی پر بھی مودی کو تکلیف نہیں ہوئی کیونکہ ان کی مخالفت کرنے والی خواتین ہمدردی اور احترام کی مستحق نہیں ہے۔ خواتین کے احترام کی بات کرنے والے نریندر مودی پہلے اپنے گھر سے نیک کام کا آغاز کریں اور اپنی شریک حیات کو عزت و احترام سے گھر واپس لائیں جو طویل عرصہ سے ناانصافی کا شکار ہے۔ جو شخص اپنی گھر والی کو در در کی ٹھوکر کھانے کیلئے چھوڑ دے ، اس کی خواتین سے ہمدردی پر کون بھروسہ کرے گا ۔ خواتین اور ان کے حقوق سے ناواقف شخص خواتین کا کیا احترام کرسکتا ہے۔ جنم جنم کا ساتھ نبھانے کا عہد کرتے ہوئے اگنی کے چکر لگانے کے باوجود خاتون کو شریک حیات تسلیم نہیں کیا گیا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ 2018 ء میں مودی حکومت نے ریاستوں کو ہدایت دی تھی کہ قتل اور عصمت ریزی کے مقدمات میں سزا پانے والوں کی سزا کو معاف نہ کیا جائے لیکن گجرات کی بی جے پی حکومت نے مرکز کے احکامات کی پرواہ نہیں کی۔ اس مسئلہ پر وزیراعظم اور مرکزی وزیر داخلہ کی خاموشی سے اندازہ ہورہا ہے کہ یہ اقدام ان کی منظوری سے کیا گیا ۔ ہندو تنظیموں نے 11 مجرمین کا کچھ اس طرح استقبال کیا جیسے وہ قیدی نہیں فریڈم فائٹر ہوں۔ سرحد پر دشمن سے لڑنے کے بعد واپس ہونے والے فوجیوں کا جس طرح استقبال کیا جاتا ہے ، اسی طرح عصمت ریزی اور قتل کے مجرمین کو تلک لگاکر حوصلہ افزائی کی گئی۔ بی جے پی دراصل گجرات اسمبلی انتخابات کی تیاری کر رہی ہے۔ گجرات فسادات کے خاطیوں کی رہائی کے ذریعہ بی جے پی نے ہندوتوا ایجنڈوں پر برقراری کا اشارہ دیا ہے ۔ ’’جیلوں میں سزا کاٹ رہے مجرمین کے ساتھ ہم ہیں اور آگے بھی رہیں گے‘‘۔ بی جے پی کا یہ پیام دراصل مرکز کے اشارہ پر ہے۔ سپریم کورٹ کو اس معاملہ میں مداخلت کرتے ہوئے سزا کی معافی کو منسوخ کرنا چاہئے کیونکہ متاثرین کیلئے عدلیہ کی واحد امید کی کرن ہے۔
ملک میں فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو جاری رکھتے ہوئے بی جے پی نے روہنگیا پناہ گزینوں کے مسئلہ پر سیاست شروع کردی ہے۔ دوسری طرف آسام میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف عوامی احتجاج شروع ہوچکا ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے اعلان کیا تھا کہ کورونا ٹیکہ اندازی کی تکمیل کے بعد شہریت قانون پر عمل کیا جائے گا جس کے تحت آسام اور دیگر علاقوں میں موجود غیر قانونی افراد کی نشاندہی کی جائے گی ۔ روہنگیا پناہ گزینوں کو بی جے پی دہشت گرد قرار دیتی ہے اور برما میں مظالم کے شکار ان خاندانوں پر تخریب کاری میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ ملک بھر میں تقریباً 40 ہزار روہنگیائی باشندوں کی شناخت کی گئی اور انہیں واپس بھیجنے کا اعلان کیا گیا ۔ گزشتہ دنوں وزیر شہری ترقی ہردیپ سنگھ پوری نے ٹوئیٹر پر اعلان کیا کہ دہلی میں روہنگیا پناہ گزینوں کو رہائشی سہولت فراہم کی جائے گی۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے قواعد کے مطابق پناہ گزینوں کو رہائشی سہولت دینے کی بات کہی۔ مرکزی وزیر کے اعلان کے فوری بعد بی جے پی اور دیگر ہندو تنظیمیں سرگرم ہوگئیں اور وزارت داخلہ کی جانب سے ٹوئیٹر پر ہردیپ سنگھ پوری کے اعلان کی تردید کی گئی ۔ مرکز میں دونوں وزارتوں میں کوئی تال میل نہیں ہے اور شہری ترقی کے وزیر نے ظاہر ہے کہ اپنے طور پر تو اعلان نہیں کیا ہوگا۔ بتایا جاتا ہے کہ ہندو تنظیموں کے دباؤ کے بعد وزارت داخلہ نے روہنگیائی پناہ گزینوں کے مسئلہ پر یو ٹرن لے لیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر سے ابھی تک صرف 19 روہنگیائی باشندوں کو واپس کیا جاسکا۔ بی جے پی کو روہنگیائی باشندوں سے ہمدردی مہنگی پڑ سکتی ہے ، لہذا فیصلہ کو واپس لے لیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب روہنگیائی پناہ گزینوں کا مستقبل کیا ہوگا ؟ آسام میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج سے مرکزی حکومت الجھن کا شکار ہے۔ اندیشہ ہے کہ یہ احتجاج آسام سے نکل کر دیگر علاقوں تک پھیل جائے گا۔ کورونا وباء کے سبب سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ملک گیر سطح پر احتجاج کو روک دیا گیا تھا۔ اگر مرکزی حکومت ان قوانین پر عمل آوری کیلئے سرگرم ہوتی ہے تو ملک میں دوبارہ احتجاج بھڑک سکتا ہے ۔ گجرات میں مجرمین کی سزا کی معافی پر منور رانا کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
بہت سی کرسیاں اس ملک میں لاشوں پر رکھی ہیں
یہ وہ سچ ہے جسے جھوٹے سے جھوٹا بول سکتا ہے