گورکھپور ہاسپٹل میں بچوں کی اموات سے شروع ہوئی ناکامی۔ اترپردیش کی بی جے پی حکومت 2017 ء سے ہر محاذ پر ناکام
ریاست میں انکاؤنٹرس کا ریکارڈ، لڑکیوں اور خواتین کی حفاظت میں ناکامی، کورونا سے فوت مریضوں کی نعشیں دریا میں دستیاب
l متھرا کی مسجد ہندوؤں کے حوالے کردینا چاہئے: آنند شکلاl مسلمانوں کو سناتن دھرم میں واپسی کرنے ریاستی وزیر کا مشورہ
بلیا (اترپردیش) : نریندر مودی اور بی جے پی نے 2014 ء سے قبل ترقی کو انتخابی موضوع بناتے ہوئے جس طرح ہندوستان کے عوام کو جھانسہ دیا، وہی کام اترپردیش میں 2017 ء سے کیا جاتا رہا ہے۔ 2017 ء کے اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کی غیرمعمولی کامیابی اُس وقت کے گورکھپور ایم پی یوگی آدتیہ ناتھ کو بی جے پی ہائی کمان نے چیف منسٹر بنایا۔ یوگی نے وزیراعظم مودی کی طرح ترقی کے کھوکھلے نعرے کے ساتھ شروعات کی لیکن میعاد کے گزرتے گزرتے بی جے پی کی ریاستی حکومت کی پول کھلتی گئی۔ چند ماہ میں ہی گورکھپور کے گورنمنٹ چلڈرنس ہاسپٹل میں آکسیجن کی قلت کے سبب درجنوں بچوں کی اموات ہوئی جس کے لئے سرکاری ڈاکٹر کفیل خان کو قربانی کا بکرا بناتے ہوئے اُنھیں سرویس سے برطرف کیا جاچکا ہے۔ یوں سمجھئے کہ نااہل یوگی حکومت کی کھوکھلی کارگذاری کی وہ شروعات ہوئی جس کے بعد ریاست میں انکاؤنٹرس کا سلسلہ چل پڑا۔ لڑکیوں اور خواتین کی حفاظت کی صورتحال کا اِس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہاتھرس واقعہ ہنوز لیت و لعل میں پڑا ہے۔ کسانوں نے ناقابل قبول زرعی قوانین کے خلاف جب احتجاج کیا تو مرکزی وزیر کے بیٹے نے اپنی گاڑی سے احتجاجی کسانوں کو روند ڈالا۔ لکھیم پور کھیری سانحہ کا ملزم آشیش مشرا اِن دنوں جیل میں ہے۔ کورونا وائرس کی وباء نے جب اترپردیش کو لپیٹ میں لیا تو ’’اہل‘‘ حکومت کے انتظامات اور اقدامات تب آشکار ہوئے جب دریائے گنگا میں نعشیں دستیاب ہوئیں جو کورونا مریضوں کی تھیں۔ اب 2022 ء کے اسمبلی الیکشن کے لئے بمشکل ساڑھے تین ماہ رہ گئے ہیں۔ بی جے پی اور یوگی حکومت کو شاید اچھی طرح اندازہ ہوگیا کہ ترقی کی باتیں بہت ہوچکی، اب پارٹی کو اپنی اصلیت اور اپنے اصل ایجنڈہ ’’مندر ۔ مسجد‘‘ پر لوٹنا ہوگا کیوں کہ انتخابی کامیابی شاید اِس کے بغیر نہیں ملے گی۔ یوگی حکومت نے اِس کام کو عملی شکل کچھ اِس طرح دی ہے کہ ریاستی وزیر آنند سوروپ شکلا کو سرگرم کردیا گیا ہے۔ شکلا نے کہا ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ متھرا کی شری کرشنا جنم بھومی کی مندر کے قریب واقع مسجد کو ہندوؤں کے حوالے کردیں۔ شکلا نے اِس مسجد کو سفید بھون کہا۔ شکلا نے اشتعال انگیز ریمارکس میں کہاکہ عدالت نے ایودھیا مسئلہ حل کردیا لیکن وارانسی اور متھرا میں واقع سفید ڈھانچے ہندوؤں کے جذبات مجروح کررہے ہیں۔ ریاستی وزیر مملکت برائے پارلیمانی اُمور نے میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت میں کہاکہ ایسا وقت آئے گا جب متھرا کا سفید ڈھانچہ جو ہر ہندو کے لئے ناگوار ہے، اُسے بھی عدالت کی مدد سے ہٹادیا جائے گا۔ شکلا نے حوالہ دیا کہ ڈاکٹر رام منوہر لوہیا نے کہا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ماننا ہوگا کہ رام اور کرشنا اُن کے آباء و اجداد تھے نیز بابر، اکبر اور اورنگ زیب حملہ آور تھے۔ خود کو اُن کی تعمیر کردہ کسی بھی عمارت سے وابستہ نہ کریں۔ ریاستی وزیر نے کہاکہ مسلم برادری کو خود آگے بڑھ کر متھرا کے سری کرشنا جنم بھومی کامپلکس میں واقع سفید ڈھانچے کو ہندوؤں کے حوالے کردینا چاہئے۔ وقت آئے گا کہ یہ کام بھی مکمل ہوجائے گا۔ شکلا نے کہاکہ 6 ڈسمبر 1992 ء کو کارسیوکوں نے رام للا سے داغ کو مٹادیا اور اب وہاں زبردست مندر زیرتعمیر ہے۔ شکلا نے دراصل ایودھیا کی بابری مسجد کے انہدام کا تذکرہ کیا جسے ہندوتوا ہجوم نے گرایا۔ سابق صدرنشین شیعہ وقف بورڈ وسیم رضوی کے سناتن دھرم اختیار کرنے کے تعلق سے استفسار پر شکلا نے کہاکہ مسلمانوں کو یہی کرنا چاہئے اور ہندومت اختیار کرتے ہوئے ’’گھر واپسی‘‘ کرنا چاہئے۔ شکلا نے وسیم کے اقدام کو سراہا اور کہاکہ ملک میں موجود تمام مسلمانوں نے کبھی نہ کبھی مذہب تبدیل کیا ہے۔ اگر وہ اپنی تاریخ کا جائزہ لیں تو اُنھیں معلوم ہوگا کہ 200 تا 250 سال قبل وہ ہندومت چھوڑ کر اسلام لے آئے تھے۔ ’’ہم چاہیں گے کہ وہ سب گھر واپسی کریں۔ یہ علماء اور مولویوں کے لئے بڑا چیلنج ہے جو اِس ملک میں رہتے ہیں لیکن طالبانی ذہنیت کے ساتھ جی رہے ہیں۔‘‘