سارا فیرگونس
وسطی بیروت ایک خطرناک دھماکہ کے ساتھ بڑی تباہی سے متاثر ہوا۔ اس دھماکہ نے بندرگاہ کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ نتیجہ میں لبنانی دارالحکومت کو غیر معمولی نقصان پہنچا اور متعدد اموات کا باعث بھی بنا۔ 4 اگست کی شام یہ دھماکہ ہوا اور اس دھماکہ کی شدت 3.5 زلزلے کے مانند تھی، جبکہ اس دھماکہ کو بیروت بندرگاہ کے ویر ہاوز میں رکھے گئے 2750 ٹن امونیم نائیٹریٹ میں دھماکے کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے۔ ویسے بھی لبنان کی معیشت بنیادی سہولتیں اور بنیادی خدمات مابعد خانہ جنگی انحطاط کا شکار ہیں اور ملک میں ایسا بدترین اقتصادی بحران پایا جاتا ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ لبنان کئی ایک بحرانوں سے دوچار ہے۔ حکومت کی بدعنوانیوں کے خلاف پہلے ہی سارے ملک میں عوام احتجاج پر اتر آئے ہیں اور حالیہ عرصہ کے دوران کووڈ ۔ 19 کی وباء نے بھی رہی سہی کثر پوری کردی، ان حالات میں دارالحکومت بیروت کی یہ بندرگاہ ملک کی اہم قومی بنیادی سہولت تھی اب وہ بھی دھماکہ کے نتیجہ میں ملبے میں تبدیل ہوچکی ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بیروت بندرگاہ لبنان کی 60 فیصد درآمدات سے نمٹا کرتی ہے اور اتنی ہی مقدار میں وہاں غذائی اشیاء اور ادویات جمع کرکے رکھی جاتی ہیں۔ جہاں تک بیروت کی بندرگاہ کی تاریخ کا سوال ہے اس کی تاریخ 15 ویں صدی قبل مسیع سے تعلق رکھتی ہیں۔ 20 ویں صدی میں بیروت بندرگاہ تیل کی تجارت اور اس سے متعلق کاروبار کے ساتھ ساتھ خلیج اور مملکت شام میں مال بردار بحری جہازوں کی آمد و رفت میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔ ایک دور میں بیروت بندرگاہ کو دنیا میں اہم مقام حاصل تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس بندرگاہ نے بیروت کی تاریخ میں ایک کلیدی کردار ادا کیا اور قلب شہر میں یہ واقع ہے اور اس کے اطراف و اکناف انتہائی اہم بستیاں آباد ہیں۔
آپ کو اندازہ ہوگا کہ 1975 سے لے کر 1990 تک لبنان خطرناک اور طویل خانہ جنگی سے متاثر رہا۔ بیروت ایک ایسا مقام بن گیا جہاں نسلی تناؤ اور علاقائی جغرافیائی سیاست شہری زندگی کا ایک اہم حصہ بنی۔ نتیجہ میں شہر کی جغرافیائی ہیت بدل کر رہ گئی۔ ستمبر 1975 میں خانہ جنگی کے چند ماہ کے اندر ہی بیروت کا وسطی علاقہ ملیشیا کے درمیان لڑائی کا اہم علاقہ بن گیا۔ جنگ کے دوران شہر ایک خطہ سبز یا گرین لائنمیں منقسم ہوگیا جس نے بیروت کو مشرقی اور مغربی حصوں میں توڑ کر رکھ دیا۔ آبادی بھی تقسیم ہوگئی، لوگ نسلی اور سیاسی خطوط پر شہر کے ایک حصہ سے دوسرے حصے میں منتقل ہوئے۔ عیسائیوں کی اکثریت زیادہ تر مشرقی علاقہ میں مقیم ہوگئی اور مسلمانوں نے اس سبز خط کے مغرب میں سکونت اختیار کی۔ ’’خطہ سبز‘‘ بتدریج جنوبی مضافات سے بڑھتے ہوئے بندرگاہ کے مغربی باب تک توسیع اختیار کر گئی۔ 1981 میں نیویارک ٹائمس نے یہ لکھا کہ بیروت بندرگاہ ہی واحد جگہ ہے جہاں خطہ سبز عبور کی جاسکتی ہے۔ مابعد جنگ دور میں بیروت بندرگاہ ایک بڑے علاقائی بندرگاہ میں تبدیل ہوگئی۔ حال ہی میں اس بندرگاہ نے ایک کنٹینر ٹرمینل کے لئے عالمی بولی کے ٹنڈرس جاری کئے اور یہ ٹنڈرس مشرق میں کنٹینر ٹرمینل کے لئے جاری کی گئی تھی جہاں حال ہی میں دھماکہ ہوا ہے۔ بیروت بندرگاہ میں بحری جہازوں کی گنجائش میں بھی قبل لحاظ اضافہ ہوا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ بیروت بندرگاہ اس شہر کے مہنگے ترین ریئل اسٹیٹ سائٹس سے متصل واقع ہے جسے بیروت سنٹرل ڈسٹرکٹ کہا جاتا ہے۔ 1980 کے اوائل میں اس علاقہ کو ازسر نو فروغ دینے کا بیڑہ اٹھایا گیا اور خانہ جنگی کے بعد یہ علاقہ لبنان کی تاریخ میں سب سے بڑے انوسٹمنٹ آپریشنس کا نشانہ بنا یعنی اس علاقہ میں غیر معمولی سرمایہ کاری کی گئی۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ازسر نو فروغ دینے کا منصوبہ متنازعہ سمجھا گیا کیونکہ اس سے شہر کے دوسرے یا مابقی علاقوں کے درمیان تفاوت پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا شہر کے دوسرے علاقوں کی بہ نسبت اس علاقہ میں جائیدادوں کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں، خدمات بھی بہت مہنگی ہوگئیں۔ عام مقامات کا فقدان پایا جانے لگا۔ سال 2015 اور 2019 میں یہ علاقہ حکومت مخالف عوامی مظاہروں کا مرکز بن گیا جبکہ کورونا وارئرس وباء پھیلنے کے بعد اس میں کمی آئی۔ یعنی عوامی مظاہروں پر کورونا وباء کے باعث خلل پڑا اور ان کی شدت کم ہوگئی ورنہ ایسی صورتحال پیدا ہوگئی تھی کہ احتجاجیوں نے کئی عمارتوں اور شہر کے قلب میں واقع اہم چوراہوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ احتجاجی مظاہرین نے حکومت کے کرپشن اور بدعنوانیوں کے خلاف مہم چھیڑ رکھی تھی۔ یہ چاہتے تھے کہ عوامی خدمات اور وسائل تک ان کے حق رسائی کا تحفظ کیا جائے ساتھ ہی احتجاجی مظاہرین نے حکومت پر جوابدہی کے لئے زور دیا۔ ان لوگوں کا احتجاج اس لئے بھی واجبی تھا کیونکہ ملک میں بنیادی سہولتیں تباہ ہوچکی تھیں یا تباہی کی جانب گامزن تھیں جبکہ خدمات بھی مفلوج ہوکر رہ گئی تھیں۔ عوام سرکاری اراضیات کھوچکے تھے یہاں تک کہ ماحولیات کے معاملہ میں بھی ملک بری طرح متاثر ہوچکا تھا۔
بیروت بندرگاہ جمیزہ، الجعتیاوی اور سرثوک کے ساتھ ساتھ تباریز جیسے شہری اور کثیر آبادی کے حامل علاقوں کے قریب بھی واقع ہے۔ انہیں صرف ایک موٹر وے کے ذریعہ تقسیم کیا گیا ہے۔ بندرگاہ کے مشرقی حصے اور راست متصل جو علاقے ہیں ان میں مار مخائل اور قرنطینہ، عثمان کرنتینا اسٹیشن شامل ہیں۔ یہ اسٹیشن پناہ گزینوں کی آمد اور بردباش کا اہم نکتہ تصور کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر 1920 میں آرمینیا سے پناہ گزینوں کی آمد اور 1940 سے فلسطینی پناہ گزینوں کی آمد کے لئے یہ مقام یعنی عثمان کرنتینا بھی جانا جاتا ہے۔ بیروت بندرگاہ سے متصل اور اطراف و اکناف جو آبادیاں ہیں وہاں لبنان کی سرکاری اور خانگی خدمات کے ادارے پائے جاتے ہیں جن میں برقی سربراہ کرنے والا ادارہ (EDL)، ایک بس ٹرمینل اور تین اسپتال شامل ہیں۔ اسی طرح جمیزہ اور مار میخائل خاص طور پر پچھلے ایک دہے سے احتجاجی مظاہروں کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ ان علاقوں کی بار بار صورت گیری کرنے کے نتیجہ میں تاریخی آثار کو کافی نقصان پہنچا اور انہیں منہدم کیا گیا، نتیجہ میں عوام تاریخی آثار کے انہدام، سوتی آلودگی اور جائیدادوں کی بڑھتی قیمتوں کے خلاف احتجاج پر اتر آئے۔ بیروت سنٹر ڈسٹرکٹ میں ایک ماسٹر پلان کے تحت تعمیر جدید کے کام کئے گئے جبکہ دوسرے علاقوں میں تعمیر جدید کے کام انتہائی سست روی کا شکار رہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہیکہ بندرگاہ بیروت اور اس کے اطراف و اکناف کے شہر کو کئی معاملات میں نظرانداز بھی کیا جاتا رہا اب کہا جارہا ہے کہ بیروت بندرگاہ کی تباہی کے نتیجہ میں اس بندرگاہ سے جو آپریشنس کئے جاتے رہے انہیں لبنان کے دوسرے بندرگاہ کو منتقل کیاجائے گا جو ساحل سے 80 کیلو میٹر دور ہے۔ اب جبکہ بندرگاہ بیروت اور اس کے اطراف و اکناف کا شہر تباہ و برباد ہوچکا ہے یہ واضح نہیں ہوسکا کہ سرمایہ کاری کے معاملہ میں اسے کتنا نقصان ہوا ہے۔