پی چدمبرم
ایسی ہندوستانی فرمس جنہوں نے 10 یا 10 سے زائد افراد کو اپنے یہاں ملازمت میں رکھا ہو، آیا ان کی ملازمتوں یا نوکریوں میں 1947ء سے کوئی اضافہ ہوا ہے؟ یہ وہی بات ہوئی جسے ہم ’’کوئی رکاوٹ‘‘ نہیں کہتے ہیں۔ مذکورہ سوال کا جواب ہاں میں ہے۔ اگر آپ یہی سوال سال 2013-14ء کے حوالے سے کریں گے تب بھی جواب ہاں میں ہوگا۔ جب تک معیشت، جنگ و جدال یا قحط سالی یا آفات سماوی سے تباہ و برباد نہیں ہوتی ، تب تک معاشی حالات یا ملازمتوں کی تعداد معقول رہتی ہے۔ مثال کے طور پر عام حالات میں ایک کشتی کو ملاح یوں ہی چھوڑ دیں تب بھی وہ آگے ہی بڑھتی رہتی ہے، کیونکہ حالات نارمل ہوتے ہیں۔ حقیقی سوال یہ نہیں ہے کہ آیا 2013-14ء سے جملہ روزگار میں اضافہ ہوا یا نہیں۔ 2013-14ء کا جہاں تک سوال ہے، وہ یو پی اے اقتدار کا آخری سال تھا اور بی جے پی نے ہر سال 2 کروڑ ملازمتیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 7 برسوں میں ان کے زیراقتدار انتظامیہ میں دیکھا جائے تو منظم و غیرمنظم شعبوں میں 14 کروڑ نئی ملازمتیں پیدا ہونی چاہئے تھے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔
کتنے روزگار؟
چند دن قبل وزارت لیبر و روزگار نے ان فرمس سے متعلق ایک سروے رپورٹ جاری کی جنہوں نے 9 شعبوں میں 10 سے زائد ملازمین رکھے ہوں۔ اس سروے رپورٹس سے پتہ چلا کہ 9 شعبے ایسے ہیں جو منظم شعبے کا جملہ 85% حصہ ہوتے ہیں۔ رپورٹ کے آخر میں بتایا گیا کہ ان شعبوں میں ملازمین کی موجودہ تعداد 3.08 کروڑ ہے۔ جبکہ 2013-14ء میں یہ تعداد 2.37 کروڑ تھی۔ (چھٹویں اقتصادی مردم شماری) اس کا مطلب یہ ہوا کہ سات برسوں میں صرف 71 لاکھ ملازمتوں کا اضافہ ہوا۔ اگر ہم ان 9 شعبوں کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں کا احاطہ کریں تو اضافہ ہوئی ملازمتوں کی تعداد 71 لاکھ سے بڑھ کر 84 لاکھ ہوجائے گی۔ رپورٹ کے جائزہ سے ایسا لگتا ہے کہ سروے میں غیرمنظم شعبہ یا زرعی شعبہ کا احاطہ نہیں کیا گیا۔ رپورٹ میں انتہائی متاثرکن نمو کا دعویٰ کیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ نمو 22% (مینوفیکچرنگ) سے لے کر 68% (ٹرانسپورٹ) تا 152% (آئی ٹی ؍ بی پی او) رہا لیکن یاد رکھئے یہ تمام نمو یا اس میں اضافہ صرف 71 لاکھ ملازمتوں تک ہی رہا۔ چونکہ حکومت نے وقفہ وقفہ سے لیبر سروے (پریاڈک لیبر سروے) کا سلسلہ منقطع کیا، اس لئے ہم ملازمتوں کے بارے میں اعداد و شمار حاصل کرنے کیلئے دوسرے ذرائع پر انحصار کرنے پر مجبور ہوئے کیونکہ ہم اور آپ سب جانتے ہیں کہ حکومت نے واضح طور پر یہ کہا کہ ’’شواہد پر مبنی پالیسی سازی اور اعداد و شمار پر مبنی عمل آوری‘‘ ۔ اسی بنیاد پر کسی شعبہ میں روزگار کے بارے میں واقف کروانے کیلئے ڈیٹا بہت اہمیت رکھتا ہے۔
دیگر قابل بھروسہ ڈیٹا
اگر دیکھا جائے تو روزگار اور بیروزگاری سے متعلق جو ڈیٹا سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی (سی ایم آئی ای) اکٹھا کرتا ہے اور اس کی اشاعت عمل میں لاتا ہے، وہ انتہائی معتبر ڈیٹا ہوتا ہے جس پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں سی ایم آئی ای کے مہیش ویاس نے ستمبر 2021ء کے تیسرے ہفتہ کے اواخر میں ملازمتوں سے متعلق تفصیلی و بنیادی ڈیٹا کو انتہائی مختصر اور جامع انداز میں پیش کیا۔ اسی خلاصہ کو راقم الحروف آپ کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ مثال کے طور پر فروری 2020ء جملہ ملازمتیں 405.9 ملین۔ بیروزگاری کی شرح 7.76% افرادی قوت کی شرح شراکت 42.6%۔ شرح روزگار 39.29%۔ اسی طرح اپریل 2020ء کے جو اعداد و شمار اس تعلق سے آئے، وہ یوں رہے۔ جملہ ملازمتیں 282. ملین۔ بیروزگاری کی شرح 23.52%، افرادی قوت کی شرح شراکت 35.57%۔ روزگار کی شرح 27.21% ۔ دوسری جانب جولائی 2020ء کا جائزہ لیں تو جملہ ملازمتیں یا روزگار کے مواقع 392.4 ملین بتائے گئے ہیں۔ جبکہ بیروزگاری کی شرح 7.4% رہی۔ اسی طرح افرادی قوت کی شرح شراکت 40.61% ظاہر کی گئی۔ روزگار کی شرح 37.6% رہی۔ اب بات کرتے ہیں اگست 2021ء اس مہینے میں جملہ روزگار یا ملازمتیں 397.8 ملین رہے۔ بیروزگاری کی شرح 8.32% درج کی گئی۔ افرادی قوت کی شرح شراکت 42.52% رہی۔ روزگار کی شرح 37.15% ریکارڈ کی گئی۔ سی ایم آئی ای اس وقت بالکل صحیح ہے جب وہ کہتی ہے کہ ہندوستان کی کووڈ ۔ 19 کے نتیجہ میں نافذ کردہ لاک ڈاؤن سے باہر آنا ایک اہم موڑ ثابت ہوا، اس دوران ملک کی معیشت جزوی طور پر متاثر رہی یا پھر تھکی ماندی رہی۔ کیا اپنی اصلی حالت میں واپسی کے بعد کوئی چیز تھکی ماندی ہوتی ہے ، یہ تو ہماری معیشت ہے۔ حکومتیں ، معیشت کی بحالی کی صورت میں ہی انگریزی حرف V کا نشان بناتی ہیں۔ ایک طرف ہم نے 2019-20ء میں جملہ روزگار تک رسائی حاصل کی اور نہ ہی اس سطح کو پار کیا۔ اس کے باوجود یہ کہنا معیشت کے منفی اثرات اور لاک ڈاؤن کے برے اثرات سے باہر نکل آئے ہیں، سوائے خام خیالی کے کچھ نہیں۔ لوگوں کے پاس روزگار ہونا ضروری ہے کیونکہ روزگار یا ملازمتیں ہوں تو آمدنی ہوتی ہے۔ کسی بھی معیشت کی ایسی بحالی جو ملازمتوں کی پرانی سطح بحال نہ کرے اور اس سطح سے آگے نہ بڑھے تو پھر وہ لوگوں کے لئے بے معنی ہے۔
سکڑتی قوت ، پھسلتی شرح
سکڑتی لیبر فورس یا افرادی قوت اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ ملکی معیشت کیلئے ایک اور سنگین مسئلہ ہے۔ افرادی قوت کی شراکت سے متعلق شرح (ایل ایف پی آر) اور شرح ملازمت اگر 2021ء میں فروری 2020ء کی بہ نسبت قابل لحاظ حد تک کم رہی۔ اس کی وجہ سروے میں یہ بتائی گئی کہ لوگوں کی کثیر تعداد لیبر مارکٹ سے دستبردار ہوئی۔ (مثال کے طور پر روزگار کی تلاش روک دی۔) اسی طرح کام کرنے والے لوگ (ملازمین) کی تعداد میں بھی گراوٹ آئی۔ جب تک ان دونوں شرحوں میں بہتری نہیں آتی تب تک جی ڈی پی کا حجم کسی بھی طرح دوگنا نہیں کیا جاسکتا اور جرمنی یا جاپان جیسی بڑی معیشتوں سے آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ سی ایم آئی ای نے ستمبر 2020ء اور ستمبر 2021ء کے درمیان جملہ ملازمتوں یا روزگار میں مجموعی اضافہ کا حساب لگایا ہے۔ صرف 44,483 تھی اور اس سے ہم محروم ہوئے ہیں۔ بعد میں نئی ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کئے گئے۔ اگر 12 ماہ سے زائد عرصے میں ملازمتوں کی مجموعی تعداد میں صرف 44,483 کا اضافہ ہوتا ہے تو پھر معیشت کے نظم اور وزراء کے ساتھ ساتھ اقتصادی مشیران کے بلند بانگ دعوؤں کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے۔ ہاں اگر ہم صنف کی بنیاد پر اس ڈیٹا کا جائزہ لیتے ہیں تو پھر افسوسناک نتیجہ پر پہنچیں گے۔ ایک بات ضرور ہے کہ تمام شعبوں میں معیشت کیلئے زرعی شعبہ ہی نجات دہندہ ثابت ہوا ہے۔ یہ ایسا شعبہ ہے جس نے مارچ 2020ء اور اگست 2021ء کے درمیان 46 لاکھ اضافی افرادی قوت کا انجذاب عمل میں لایا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی مدت کے دوران دیہی ہندوستان 65 لاکھ غیرزرعی ملازمتوں سے محروم ہوا۔ لوگ غیرزرعی ملازمتوں سے زرعی ملازمتوں کی جانب منتقل ہوئے، لیکن یہ بھی بیروزگاری کی ایک شکل ہوسکتی ہے۔ میری خواہش ہے کہ وزیراعظم اپنے آئندہ ریڈیو پروگرام ’’من کی بات‘‘ میں بیروزگاری اور ملازمتوں سے محرومی سے متعلق مسائل پر بات کریں۔