بیرونی ممالک میں ہندو قوم پرستی کے مخالفین کو قتل کی دھمکیاں

,

   

امریکہ اور کینیڈا کی یونیورسٹیاں میدان جنگ میں تبدیل، نیویارک ٹائمز کی رپورٹ
واشنگٹن : ہندوستان کی نریندرمودی حکومت کی مبینہ طور پرپھیلائی گئی ہندو قوم پرستی دنیا بھر میں وبائی شکل اختیار کر گئی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں ہندوستانی کمیونٹی میں تناؤ کے بعد نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ امریکی اور کینیڈین یونیورسٹیاں بھی میدان جنگ میں تبدیل ہورہی ہیں جہاں ہندو قوم پرستی کی مخالفت کرنے والوں کو قتل کی دھمکیاں دی جانے لگیں۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق خالصتان رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے معاملے پر پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد مختلف ممالک نے ہندوستانی سفارتکاروں، قوم پرست تنظیموں، بی جے پی اور آر ایس ایس کی نگرانی شروع کر دی ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق امریکہ اور کینیڈا کی یونیورسٹیوں میں قوم پرستی کی حمایت اور مخالفت سے بڑھ کر معاملہ دھمکیوں تک جا پہنچا ہے اور اب تو مندروں اور گردواروں کو بھی نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔امریکی اخبار کے مطابق نریندر مودی کی ’سب سے پہلے ہندو ‘کی پالیسی اوربڑھتی عدم برداشت کا کلچر دنیا بھر میں آباد انڈین کمیونٹی میں وبا کی طرح پھیل گیا ہے، جس سے ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان تاریخی تقسیم شدت اختیار کرگئی ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اب اس کی جھلک سٹی کونسلوں، اسکول بورڈوں، ثقافتی تقاریب اور تعلیمی حلقوں میں بھی کھل کرنظر آرہی ہے۔ اخبار کے مطابق مودی حکومت نے مذہبی اقلیتوں کے خلاف منافرت پر مبنی قانون بنائے جبکہ مودی کے حامی، اقلیتوں کے قتل عام میں ملوث ہیں مگر انہیں کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔کینیڈین اور امریکی یونیورسٹیوں کے لیکچر ہال ہندو قوم پرستی کے ناقدین اور محافظوں کیلئے میدان جنگ بن چکے ہیں۔ کینیڈا اور آسٹریلیا میں سکھوں اور ہندوؤں کے مندروں کو تقسیم کے نعروں سے مسخ کر دیا گیا ہے۔ کینیڈا کی حکومت کا یہ چونکا دینے والا الزام کہ وینکوور میں کینیڈا کے ایک سکھ علیحدگی پسند کے پیشہ ورانہ طرز کے قتل کے پیچھے ہندوستانی حکومت کے ایجنٹوں کا ہاتھ تھا۔اوٹاوا کی کارلٹن یونیورسٹی میں تاریخ کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر اور ذات پات کے ماہر، چنایا جنگم نے کہا کہ 2014 سے پہلے کینیڈا میں ہندوستانی باشندوں میں اس قسم کی تقسیم نہیں دیکھی تھی ۔کینیڈین مسلمانوں کی نیشنل کونسل کے چیف ایگزیکٹو سٹیفن براؤن نے کہا کہ آپ نے جو دیکھا ہے وہ ایک متعدی اثر ہے۔ مودی اور ان کی پارٹی بی جے پی 2014 میں اقتدار میں آئی جس نے ہندوتوا کے نام سے ایک ہندو قوم پرست ایجنڈہ کی حمایت کی جس سے متعلق ناقدین کا کہنا ہیکہ اس نے ہندوستان کی تقریباً 20 فیصد آبادی پرمشتمل مذہبی اقلیتوں کیخلاف بڑھتے ہوئے تشدد اور امتیازی سلوک کو ہوا دی ہے۔ماہرین کا کہنا ہیکہ ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو فرسٹ پالیسیوں اور جانچ پڑتال کے بارے میں ان کی بڑھتی ہوئی عدم برداشت نے دنیا بھر میں ہندوستانی کمیونٹیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ مودی کی حکومت نے مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی قوانین اور پالیسیاں اپنائی ہیں کیونکہ ان کے کچھ حامیوں نے ان کے خلاف قتل و غارت اور تشدد کی کارروائیاں کی ہیں لیکن مغربی ممالک کی جانب سے ہندوستان کے ساتھ قریبی اقتصادی تعلقات اور چین کیلئے جیو پولیٹیکل جواب دینے کیلئے کی جانے والی تنقید کو خاموش کر دیا گیا ہے۔ آر ایس ایس کی کئی دہائیوں سے پیروی کرنے والے ایک ہندوستانی مصنف دھیریندر کے جھا نے کہا کہ یہ بیرون ملک مقیم ہندوستانی باشندوں میں تیزی سے سرگرم ہو گئی ہے۔ بی جے پی کو آر ایس ایس کا سیاسی ونگ سمجھا جاتا ہے جس نے مودی کے سیاسی کیریئر کو شروع کرنے میں مدد کی جو ابھی تک اس کے ایک رکن ہیں۔