کنسلٹنسی سے لاکھوں روپیوں کی وصولی ، طلبہ اور اولیائے طلبہ از خود کارروائی کریں
حیدرآباد۔9۔جولائی (سیاست نیوز) بیرون ملک اعلیٰ تعلیم اور ویزا کے حصول کو یقینی بنانے کے نام پر جاری دھوکہ دہی کے واقعات میں ہونے والے اضافہ کو روکنے کے لئے فوری طور پر اقدامات ناگزیر ہیں کیونکہ دونوں شہروں حیدرآبادوسکندرآباد کے کئی علاقوں میں چلائی جانے والی کنسلٹنسی کے ذمہ دار امریکہ ‘ آسٹریلیاء ‘ جرمنی ‘ آئرلینڈ‘ برطانیہ ‘ نیوزی لینڈ‘ کینیڈا کی جامعات میں داخلوں اور ویزوں کی اجرائی میں لاکھوں روپئے وصول کر رہے ہیں اور ابتدائی طور پر ویزا کی کاروائی کے نام پر وصول کئے جانے والے ہزاروں روپئے ویزا حاصل نہ ہونے پر واپس کرنے سے انکار کرنے لگے ہیں ۔ دنیابھر میں کئی ممالک نے ہندستانی طلبہ کی تنقیح اور انہیں ویزوں کی اجرائی میں سخت گیر جانچ کے اقدامات کا آغاز کیا ہے جس کا فائدہ ان کنسلٹنسی کے ذمہ دار اٹھانے لگے ہیں اورویزا کی کاروائیوں کے نام پر لاکھوں روپئے وصول کرنے لگے ہیں۔ طلبہ اور اولیائے طلبہ کو اس بات سے واقف ہونا چاہئے کہ مذکورہ ممالک کے ویزوں کی اجرائی کے معاملہ میںجو اصول ہوتے ہیں ان سے انحراف کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اسی لئے کوئی Back Door کا راستہ نہیں رہتا اسی لئے ان کنسلٹنسی کے ذمہ داروں کے جھانسہ میں آئے بغیر اپنے بیرون ملک جامعات میں داخلہ اور ویزاکی کاروائی کے لئے کنسلٹنسی کو مشاورت کی حد تک محدود رکھتے ہوئے از خود ویزا درخواستوں کے ادخال ‘انٹرویو کا سامنا ‘ کرنے کے لئے تیار رہیں کیونکہ ویزاکی اجرائی درخواست گذار کے معاشی موقف ‘ تعلیمی اسنادات اور انٹرویو کی بنیاد پر ہی عمل میں لائی جاتی ہے اور ان ممالک کے قونصل عہدیداروں کا اپنا اختیار ہوتا ہے کہ وہ درخواست گذار کو ویزاجاری کریں یا نہ کریں اسی لئے دھوکہ بازوں سے چوکنا رہتے ہوئے اپنی کاروائی کرنی چاہئے ۔ ویزادلوانے اور بیرون ملک روانہ کرنے کی ضمانت دیتے ہوئے طلبہ کو راغب کرنے والی ایجنسیوں کی جانب سے اب سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے تشہیرکرنے لگے ہیں اور نوجوان ان دل خوش کن اشتہارات کا مشاہدہ کرتے ہوئے ان کنسٹلنسی کے ذمہ داروں سے رجوع ہورہے ہیں جہاں ان کو ویزا کے حصول کی ضمانت دیتے ہوئے ہزاروں روپئے ابتداء میں خرچ کروائے جا رہے ہیں اور یہ باورکیا جا رہاہے کہ ان کی ایجنسی کے ذریعہ درخواستوں کے ادخال پر ویزاکے حصول کی ضمانت ہوگی لیکن اگر ویزا مسترد ہوتا ہے تو ان کی جانب سے ادا کی گئی رقم واپس دینے کے بجائے کہا جا رہاہے کہ جو رقم ادا کی گئی ہے وہ ویزا فیس اور دیگر امور میں خرچ ہوچکی ہے۔3