بین الاقوامی سرحد پر کشیدگی، کسان فصلیں سمیٹنے کی دوڑ میں مصروف

   

جموں، سانبہ اور کٹھوعہ میں 1.25 لاکھ ہیکٹرز زرعی زمین پاکستانی شلباری کی زد میں

جموں: جنوبی کشمیر کے پہلگام میں 22 اپریل کو پیش آئے دہشت گردانہ حملے کے بعد بین الاقوسامی سرحد پر خوف کا ماحول ہے ، جہاں کسان اپنی فصلوں کو جلدازجلد کاٹنے ، سکھانے اور محفوظ مقامات تک پہنچانے میں جٹ گئے ہیں۔جموں، سانبہ اور کٹھوعہ کے تین سرحدی اضلاع میں تقریباً 1.25 لاکھ ہیکٹر زرعی زمین پاکستانی شیلنگ کی زد میں آتی ہے ۔ ان علاقوں میں ٹریوا، مہاشے دے کوٹھے ، چندو چک، گھرانہ، بُلا چک اور کوروٹانا کلان جیسے دیہات شامل ہیں، جہاں دن رات کسان اپنے خاندانوں سمیت کھیتوں میں مصروف ہیں تاکہ ممکنہ گولہ باری سے پہلے فصلیں محفوظ کی جا سکیں۔ٹریوا گاؤں کے 50 سالہ کسان رانا سنگھ نے کہا، ‘ہم وقت کے خلاف دوڑ رہے ہیں۔ گولہ باری کسی بھی وقت شروع ہوسکتی ہے ۔ یہ گاؤں سرحد سے محض ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور براہ راست پاکستانی رینجرز کی رینج میں آتا ہے ۔مقامی حکام کی جانب سے فوری ردعمل کے طور پر 20 جدید مشینوں کا انتظام کیا گیا ہے تاکہ فصلوں کی کٹائی میں تیزی لائی جا سکے ۔ ایک اور کسان نرجن شرما نے بتایا، ‘95 فیصد فصل کی کٹائی مکمل ہو چکی ہے ۔ ہم بچی کھچی فصلیں تیزی سے محفوظ کررہے ہیں۔ایک خاتون نرملا دیوی نے بتایا کہ ان کے خاندان نے چند دنوں میں چار سو سے زائد گندم کے بورے تیار کر کے محفوظ مقامات کی جانب منتقل کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مل مالکان بھی جلدی کر رہے ہیں اور ہمیں اچھی قیمت بھی دے رہے ہیں۔سچیت گڑھ کی یملا دیوی نے بتایا کہ پہلگام حملے کے بعد ہم الرٹ ہو گئے ۔ اب جبکہ زیادہ تر کٹائی مکمل ہوگئی ہے ، ہم پیداوار کو جلد از جلد ذخیرہ کر رہے ہیں۔اس صورتحال میں مزدوروں کی کمی بھی ایک بڑا چیلنج ہے ۔ وریندر کمار نامی ایک کسان نے بتایا کہ عام طور پر کٹائی کے دوران کام کرنے والے بہار اور اتر پردیش کے مزدوروں نے اس بار خطرے کے پیش نظر کام کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ کٹھوعہ کے پہاڑپور سے جموں کے ’چکنز نیک‘ تک کا پورا سرحدی زرعی علاقہ مستقل خطرے کی زد میں ہے ، جہاں ہزاروں خاندان بین الاقوامی سرحد سے پانچ کلومیٹر کے اندرونی دائرے میں رہتے ہیں۔چندو چک کے سکھ کسان سردار بہادر سنگھ نے کہا کہ ہم خوف میں جیتے ہیں، لیکن اب حالات کے عادی ہو چکے ہیں۔ اس بار ہم بہتر تیاری کے ساتھ فصلیں بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو ماضی میں ممکن نہ ہو سکا تھا۔مقامی لوگوں نے بتایا کہ ہمیں لگتا ہے کہ اس بار2021 سے بھی شدید صورتحال پیدا ہو گئی، شاید 1971جیسی جنگ کی نوبت آ جائے ۔ ہم تیار ہیں اور اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے ۔