بین الاقوامی یوم مادری زبان

   

ایم وینکیا نائیڈو
ہماری قدیم سرزمین ہمیشہ سے ہندوستانی اہمیت اور متحرک تمدنی تنوع کے لحاظ سے مالا مال رہی ہے۔ صدیوں سے ہندوستان میں سینکڑوں زبانیں اور بولیاں دیکھی جاتی رہی ہیں۔ نمایاں جوش و جذبہ اور طاقت کے ساتھ ہماری رنگارنگ تہذیب میں یہ زبانیں اور بولیاں بولی جاتی رہی ہیں۔ ہم اس ناقابل تردید حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ ہماری مادری زبان بنیادی مواصلات کا ذریعہ ہے۔ ہم سماجی گروپس کے افراد کا انفرادی تشخص بحال رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ حکومتیں اپنی پالیسیاں مقرر کرتے وقت مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ بنیادی سطح سے رہنمایانہ خطوط پر عمل کیا جائے۔
اس کے جواب میں کئی زبانوں کا حال ابتر ہے اور ان کے معدوم ہونے کا سنگین خطرہ لاحق ہے۔ ہمیں اپنے تمدن کا اور انسانی تنوع کا تشخص مختلف ریاستوں میں یونسکو کے نومبر 1999 میں جاری کردہ ہدایات کے مطابق برقرار رکھنا چاہئے۔ 21 فروری کو بین الاقوامی مادری زبان کا دن قرار دیا گیا ہے۔ یونسکو نے پیش قیاسی کی ہے دنیا کی آدھی سے زیادہ زبانوں کا مستقبل تاریک ہے اور جاریہ صدی کے ختم ہونے تک یہ زبانیں معدوم ہو جائیں گی۔ اس لئے ان کے تشخص کی ٹھوس کوشش کرنا ضروری ہے ورنہ یہ افق میں تحلیل ہوسکتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمارے تمدن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
2021 کے بین الاقوامی یوم مادری زبان کا مرکزی موضوع ’’تعلیمات کے شعبہ میں شامل کرکے کثیر لسانی سماجی نوعیت کو برقرار رکھا جائے‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہ قرار دیا جانا کثیر لسانی ملک میں تمام زبانوں کو شامل کرنے کے ذریعہ ان کے تشخص کی برقراری کا اصول ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی حکمرانی کا انداز ایسا رکھیں گے وہ تمام سماجی شعبوں کا احاطہ کرے اور ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کے اصول پر اس کی بنیاد رکھیں۔
ہم تمام ہندوستانیوں کے لئے بین الاقوامی یوم مادری زبان اس کی خصوصی اہمیت تہذیبی اور لسانی تنوع کے ہندوستانی تہذیب کے پس منظر میں رکھتا ہے۔ ہمارے اقدار اور بصیرت، عزائم اور نظریات، زندگی اور ادب مادری زبان کے ذریعہ ہی اپنا اظہار کرتے ہیں۔ کئی زبانوں سے مالا مال زبانیں اور بولیاں ہمارے علاقوں میں پائی جاتی ہیں اور ان میں قدیم علوم کا ذخیرہ موجود ہے جو آج بھی قابل قدر ہے۔ کئی افراد کے لئے اور ادارہ جاتی ذہنیت کی کجروی کو روکنے کے لئے انگریزی کو بحیثیت تمام زبانوں کو جوڑنے والی زبان کے طور پر برقرار رکھا جانا چاہئے۔ یہ زبان جعلی برتری کی علامت ہے۔ یہ خوبیوں کے اعتبار سے کھوکلی ہے۔ ہم ہمیشہ متفقہ طور پر اس ذہنیت کی مخالفت کرتے رہے ہیں کیونکہ یہ نفسیاتی غلامی کی نشانی ہے۔ مہاتما گاندھی کی دورس نگاہیں انہیں مضطرب رکھتی تھیں چنانچہ انہوں نے انگریزی ذریعہ تعلیم کو نظرانداز کرنے کا مشورہ دیا ہے جس کا سلسلہ جاری رہ چکا ہے اور اب بھی جاری ہے۔ بعض لوگوں کے خیال میں مادری زبان کو نظرانداز کرنے سے لسانی فاقہ کشی کا دور شروع ہوسکتا ہے۔
چنانچہ میں ماہرین تعلیم پر زور دیتا ہوں کہ اس مسئلہ سے بے حسی نہ برتیں اور معلومات کی تعلیم ایسی زبان میں نہ دیں جو ہمارے سماجی۔ تہذیبی پس منظر اور تعلیم حاصل کرنے والے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے۔ کئی تحقیقی مقالوں سے انکشاف ہوتا ہے کہ عزت نفس کی بحالی جدت میں اضافہ کرتی ہے اور اس کے نتائج معلومات کے حق میں بہتر نکلتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں بچوں کو تعلیم مادری زبان کے ذریعہ دی جانی چاہئے جیسا کہ نلسن منڈیلا نے نشاندہی کی ہے ’’اگر آپ کسی شخص سے ایک ایسی زبان میں بات کریں جس کو وہ سمجھتا ہو تو آپ کی بات اس کے ذہن نشین ہو جائے گی، اگر آپ اس سے اس کی زبان میں بات کریں تو یہ بات اس کے دل نشین ہوگی‘‘
عالمی سطح پر اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ بنیادی سطح کی تعلیم مادری زبان کے ذریعہ اپنا اظہار کرسکتی ہے۔ اگر روزانہ کی زندگی میں بنیادی سطح پر اعلیٰ سطح کا طیارہ اپنی سماجی اور لسانی برتری کے سہارے پرواز کرے تو سیکھنے والے کے لئے ناقابل فہم بن جائے گا۔ مادری زبان کے ذریعہ معلومات کے انکشاف سے ابتدائی برسوں سے ہی تعلیم کی اہمیت کا انکشاف ہوسکے گا۔ یونیسکو کے سابق ڈائرکٹر جنرل کوئیچیرو متسورا نے مختصر طور پر اسی بات کو پرزور انداز میں ظاہر کرتے ہوئے تبصرہ کیا ہے کہ جس زبان کو ہم اپنی ماؤں سے سیکھتے ہیں اور اپنے وطن میں سیکھتے ہیں ہمارے افکار کی عکاس ہوتی ہیں۔ انہوں نے ہر زبان کو قابل قدر اور نمایاں اہمیت کی حامل قرار دیتے ہوئے اسے انسانی زندگی کے لئے ناقابل تلافی قرار دیا ہے۔
والدین اور ماہرین تعلیم کو اس نظریہ سے چھٹکارا حاصل کرلینا چاہئے کہ اگر انگریزی ذریعہ تعلیم کے ذریعہ بہتر علم حاصل کیا جاسکتا ہے، مجھے بھرپور یقین ہے کہ تدریس اور حصول تعلیم اسکول کی سطح پر اسی وقت ممکن ہے جبکہ ذریعہ تعلیم مادری زبان میں ہو کیونکہ پوری زندگی اس کا اثر برقرار رہتا ہے۔ جب بچے اپنا اعتماد بحال کرسکتے ہیں اور تہذیبی و لسانی بنیادوں کو مستحکم بنا سکتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ والدین اور اساتذہ بچوں پر وسیع دنیا کی حقیقت کا علم دے کر ان کے قومی جذبہ کو مستحکم کرسکتے ہیں۔ ہمارے ملک کی کئی ریاستوں میں روزانہ کی زندگی میں کم از کم دو زبانوں کا علم حاصل کرنا قومیت کے درجہ کو مستحکم بنانے کے لئے ضروری ہے۔ جنوبی افریقہ، سوئٹزرلینڈ، سنیگال، بلجیم، فلپائن اور کینیڈا وغیرہ میں بھی اس کی ضرورت ہے۔ سابق سکریٹری جنرل اقوام متحدہ کوفی عنان نے اولین بین الاقوامی یوم مادر کے سلسلہ میں ایک تقریب میں پیغام کے ذریعہ کہا تھا کہ ’’ہمارے دور کا سبق یہ ہے کہ تمام کو ساتھ لے کر چلنا چاہئے لیکن انسان اور انسانیت اپنے آپ کو ایک سے زیادہ زبانیں سیکھنے کی دولت سے مالا مال کرنے سے گریز کرنے کی کوشش کرتی ہے‘‘۔
لسانی مردم شماری کے بموجب انکشاف ہوتا ہے کہ ہندوستان میں 19,500 زبانیں اور بولیاں رائج ہیں جن میں سے 121 زبانیں مزید 10 ہزار افراد کی جانب سے بولی جاتی ہیں اس لئے یہ ضروری ہے کہ انہیں برقرار رکھا جائے اور 196 ہندوستانی زبانوں کو معدوم ہونے کے خطرہ سے بچا کر مستحکم کرنا چاہئے۔ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے اور پالیسی کی نمایاں خصوصیت ہے۔ اس کی نشاندہی ضروری ہے کہ ہماری چند قبائیلی زبانوں کو معدوم ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔ ہمیں ان کا تحفظ کرنا چاہئے اور دستاویزات میں ان کا استعمال کرکے ان کا احیا کرنا چاہئے۔ ہندوستان کی وزارت تعلیمات نے اس کے لئے ایک پالیسی (ایس پی پی ای ایل) کو منظوری دی ہے اور میسور میں (سی آئی آئی ایل) کو بھی منظوری دی گئی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ ہمیں اپنی مادری زبان کو فروغ دینا چاہئے اور حکمرانی کے کئی شعبوں میں اسے استعمال کرنا چاہئے۔ عدالتی فیصلے 22 سرکاری زبانوں کے علاوہ 6 زبانوں میں سربراہ کئے جانے چاہئے۔ جیسے آسامی، ہندی، کنڑی، تلگو، اڑیا اور مراٹھی یہ کام ابتدائی مرحلے میں کیا جانا چاہئے۔ میں چاہوں گا کہ اس بات کا اعادہ کروں کہ تمدنی خزانہ جو اقدار، روایات، رواج، کہانیوں، رویہ اور معیاروں پر مشتمل ہوتا ہے تہذیبی اہمیت کا حامل ہے اسے محفوظ کیا جانا چاہئے کیونکہ زبانوں اور تہذیب کا تاریخی رابطہ ہوتا ہے جس سے ہمارا تمدن و تہذیب مالا مال ہوتی ہے۔ جئے ہند