بیوی میکے گئی ہے

   

مظہر قادری
حیدرآباد تو حیدرآباد دنیا کا ہر شادی شدہ مرد جب یہ جملہ بیوی میکے گئی ہوئی ہے بولتا تو اس کے چہرے سے اتنی خوشی ظاہر ہوتی کہ جس کی کوئی حد نہیں ہوتی ، کہتے ہیں انگریزی کا مشہور شاعر جان ملٹن کی جب شادی ہوئی تھی تو اس کے بعد اس نے اپنے وقت کی مشہور نظم Paradise lost لکھی تھی یعنی جنت گم ہوگئی اور جب اس کی بیوی اس سے جدا ہوگئی تو اس نے اپنے مشہور زمانہ نظم Paradise Regained یعنی جنت واپس مل گئی لکھی تھی ، اسی طرح ہر شادی شدہ مرد کو جب بھی اس کی بیوی میکے جاتی ہے تو اس وقت اسے جنت واپس مل گئی کا کام از کم وقتی طور پر احساس ہوجاتا ہے ۔ ایک صاحب سے کسی نے پوچھا کہ تم شادی سے پہلے کیا کرتے تھے تو انہوں نے نہایت افسردگی سے جواب دیا جو دل میں آیا وہ کرتا تھا یعنی شادی کے بعد سے مرد کی شخصی آزادی مکمل طور پر ختم ہوجاتی ہے اور سمجھ لیجئے اس پر ایمرجنسی لاگو ہوجاتی ہے جیسے ایمرجنسی کے دوران شہریوں کے تمام حقوق سلب ہوجاتے ہیں اسی طرح شادی کے ساتھ ہی مرد کی تمام آزادی ختم ہوجاتی ہے اور جب اس کی بیوی میکے جاتی ہے تو اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وقتی طور پر جیل سے ضمانت پر رہا کیا گیا ہے اور وہ آزاد فضاؤں میں سانس لے رہا ہے۔ اکثر بیویاں میکے جانے کے باوجود بھی مردوںکے اطراف ایسے ایسے جالے بن کر جاتے ہیں کہ وہ آزاد ہونے کے باوجود بھی ایسا محسوس کرتا ہے کہ اسے Conditional Bail پر رہائی ملی ہے ۔ ایک صاحب کی بیوی زیادہ عرصہ کیلئے میکے گئی تو شوہر کو بہت سارے وارننگ کے ساتھ یہ بھی وارننگ دے گئی کہ کہیں آوارہ گردی کرنے نہیں جانا بلکہ آفس کا وقت ختم ہوتے ہی ٹھیک پانچ بجے سیدھے گھر آجانا اور یہ معمول بنالی تھی کہ وہ روز آفس ٹائم کے فوری بعد فون کرتی اور پوچھتی کہاں ہے تو شوہر جواب دیتا کہ گھر پہنچ گیا ہوں تو بولتی اپنے گھر کے پالتو طوطے کی آواز سناؤ تو شوہر طوطے کی آواز سنادیتا تو خوش ہوکر بولتی تھینک یو۔ آئی لو یو ۔ ہر روز یہی سلسلہ چلتا تھا ایک دن بیوی شوہر کو سر پرائز دینے بلا اطلاع آفس ٹائم کے فوری بعد گھر پہنچ گئی تو دیکھی کہ گھر پر تالا پڑا ہوا تھا تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد پڑوسن سے پوچھی میرے شوہر تو روز پانچ بجے آفس سے گھر آجاتے تھے لیکن پتہ نہیں کیا بات ہے آج ابھی تک نہیں آئے تو پڑوسن بولی جب سے تم میکے گئی ہوئی ہو تمہارے شوہر روز صبح چھ بجے طوطے کا پنجرا گاڑی پر لٹکاکر نکل جاتے ہیں اور آدھی رات کے بعد گھر آتے ہیں، ہم ہر روز اخبار میں یہ خبر پڑھتے ہیں کہ بیوی کے میکے چلے جانے سے دلبرداشتہ ہوکر شوہر نے خودکشی کرلی ، حالانکہ حالات حاضرہ کے حساب سے سرخی یہ ہونی چاہئے تھی ، بیوی کے اچانک میکے سے واپس آجانے سے شوہر نے دلبرداشتہ ہوکر خودکشی کرلی کیونکہ بیوی کے میکے چلے جانے سے شوہر اپنی بہت ساری چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو پوری کرلے سکتا ہے جیسے وہ رات میں سونے سے اٹھنے پر پلنگ پے دونوں طرف سے اترسکتا ہے ، اپنے بہنوں بھائیوں سے مل سکتا ہے ، اپنے دوست احباب کو گھر بلا سکتا ہے ، صبح گھر سے جلدی جاسکتا ہے اور دیر گئے گھر آسکتا ہے ، دیر سے آنے پر یاد آیا کہ ایک صاحب کو اس کے آفیسر نے پوچھا کل رات بارہ بجے میں نے ضروری کام سے فون کیا تم نے فون نہیں اٹھایا کہاں تھے تو وہ صاحب بولے فیملی کورٹ میں حلف نامہ داخل کر رہا تھا تو اس نے جھنھلاکر بولا آدھی رات کو کونسی کورٹ تھی تو وہ بولے رات دیر سے گھر آنے پر بیوی کو صفائی پیش کر رہا تھا ۔ زمانے قدیم میں غلاموں کی خرید و فروخت ہوتی تھی اور دولت مند لوگ غلام خرید کر ان کو جس طرح چاہے اس طرح استعمال کرتے تھے ، ان سے ہر جائز اور ناجائز کام لیتے تھے اور وہ بے چوں چرا ان کے ہر حکم کی تعمیل کرتے تھے ، ان کی ذاتی کوئی مرضی نہیں ہوتی تھی لیکن وہ غلام آج کے شوہروں سے خوش قسمت تھے کہ عموماً ایک متعینہ مدت کے بعد آقا انہیں آزاد کردیتا تھا یا اس کی کارکردگی سے بھی خوش ہوکر مدت سے پہلے آزاد کردیتا تھا لیکن بیچارے آج کے شوہر کو آزادیٔ دائمی صرف موت کے بعد ہی آتی ہے ۔
نالوں کی کشاکش سہہ نہ سکا خود تارے قفس ہی ٹوٹ گیا
ایک عمر سے تھی تکلیف جسے کل شب کو وہ قیدی چھوٹ گیا
ہمارے معاشرے میں آج کل عورتوں کے حقوق آزادی اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ جب تک شادی نہیں ہوتی انتہائی مظلوم رہتے لیکن جیسے ہی شادی ہوتی وہ ظالم بن جاتے ہیں اور روز ازل سے ان کے دماغ میں یہ بات بٹھادی جاتی ہے کہ مرد کا ٹیٹوا دبا کے رکھو، اسے کسی بھی رشتہ دار کواسے مت ملنے دو، اس کے جتنے بھی شوق ہیں سارے چھڑا دو، صرف اس کو غلام بناکے رکھو، اس پر واجبی اور غیر واجبی تہمت لگاتے رہو تاکہ وہ ذہنی طور پر بیوی کا غلام بن کر ڈر کر رہے ، اس کے ہر کام میں نقص نکالو اس کے ہر دوست کو برا بولو ، اس کے ہر رشتہ دار کی برائی کر کے اسے احساس کمتری کردو ، اس لئے جب بیوی میکے جاتی ہے تو شوہر اس کے وقتی آزادی کے وقفہ میں کوشش کرتا ہے کہ اپنی من مانی کرسکے جس میں بعض لوگ کامیاب ہوتے ہیں اور بعض لوگوں پر بیوی کا خوف ایسا طاری ہوتا ہے کہ اس کے میکے چلے جانے کے باوجود بھی اپنے آپ کو ان دیکھی آنکھوں کے حصار میں سمجھ کر زندگی روز کے ڈھپ پر ہی گزارتے رہتے ہیں، ایک دن ایک صاحب آفس کو دیر سے پہنچے تو آفیسر نے وجہ پوچھی تو بولے بیوی میکے گئی ہے ، اسے چھوڑنے اسٹیشن گیا تھا اس لئے دیر ہوگئی ۔ آفیسر نے پوچھا مگر یہ چہرے پر کالک کاہے کی لگی ہوئی ہے تو وہ صاحب بولے خوشی میں ریل کے انجن کو چوم لیا تھا ، ویسے ہی ایک صاحب آفس میں اداس بیٹھے تھے تو ساتھی نے وجہ اداسی پوچھی تو بولے میری بیوی ایک مہینے کے لئے میکے گئی ہے تو دوست بولا اس پر تو تمہیں آزادی کی خوشیاں منانا چاہئے تھا تو وہ صاحب افسردگی سے بولے ایک مہینہ پہلے میں بھی منایا تھا لیکن وہ آج واپس آرہی ہے۔
بیوی میکے جانے پر شوہر گنگنا سکتا ہے، اپنے پسند کے کپڑے پہن سکتا ہے ، ہوٹل جاسکتا ہے ، پکچر دیکھ سکتا ہے ، اپنی پسند کی تفریح کرسکتا ہے ، ورنہ آدھی رات کو بھی بیوی اگر اٹھی تو ہوشیار رہنے کے باوجود بھی دبک کر سونے کی ایکٹنگ کرتے رہتا ہے کیونکہ ہلنے کے ساتھ ہی آدھی رات کو بھی بیوی فوراً کوئی سوال کرتی یا کچھ نہ کچھ ضرور بولتی بیوی ایک انکوائری کمیشن رہتی جو آپ سے صبح سے شام تک صرف سوالات پوچھتے رہتی اور سب سے بڑا کمال رہتا کہ وہ آپ کے کسی بھی جواب کا یقین نہیں کرتی اور ہر جواب کو شک کے دائرے میں رکھ کر دیکھتے رہتی۔ لفظ ’’ک‘‘ کا سب سے زیادہ استعمال بیوی کرتی ، کہاں جارے ، کب تک آتے ، کا ہے کو جارے ، کیا کام ہے ، کیا فائدہ جاکے ، کیا کمارے بولکے ، کتے بار ایک ہی بات بولنا ، کس کے ساتھ جارے ، کس سے فون پے بات کر رے، کا ہے جلدی جارے ، کدھر دیکھ رے ، کیا دیکھ رے وغیرہ وغیرہ۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ شوہر کیلئے گھر جنت مقام ہو اور وہ اپنی کمائی کے وقت سے ہٹ کر اس بات کا خواہش مند رہے کہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اپنی بیوی بچوں کے ساتھ گزارے لیکن ہم میں سے اکثر لوگوں کے گھر دوزخ سے بھی بدتر ہیں ۔ مرد گھر جانے سے ڈرتے ہیں، کہ پتہ نہیں آج کیا نئی قیامت آنے والی ہے ، میاں بیوی کو اپنے درمیان کی بد گمانی کی خلیج کو دور کرنا چاہئے اور اس کا واحد طریقہ یہ ہے کہ شوہر بیوی کے سا منے کبھی جھوٹ نہ بولے اور بیوی بھی شوہر کی بات کی عزت کرے ، ایک دوسرے پر مکمل بھروسہ کرے ، دل میں شک اور بدگمانیوں کو جگہ نہ دیں۔ لوگوں کے بہکاوے میں نہ آئے یا سنی سنائی باتوں پہ یقین کر کے شک نہ کریں۔ ایک دوسرے کا پیار اور اعتماد ہی اس رشتہ کی اصل بنیاد ہوتی ہے ۔ ایک دوسرے میں خامیاں تلاش کر کے اداس ہونے کے بجائے خوبیاں تلاش کر کے خوش رہے۔
مرد باہر کمانے کیلئے جاتا ہے اور اس کوشش میں دن بھر اسے اچھے برے تجربے ہوتے رہتے ہیں۔ عموماً تھکن ناکامی اور مجبوریوں کی وجہ سے اس کا موڈ باہر سے گھر آئے وقت خراب رہتا ہے اس لئے بیوی کو چاہئے کہ شوہر کے گھر میں داخل ہوتے ہی فرمائشی پروگرام یا سوال جواب کا بھانڈا کھول کر نہ بیٹھے بلکہ شوہر کے موڈ کے حساب سے بات کریں تو شائد وہ اخبار کی سرخی صحیح ثابت ہوگی کہ ’’بیوی کے میکے چلے جانے سے دلبرداشتہ ہوکر شوہر نے خودکشی کرلی‘‘۔ ٭