وجئے واڑہ 29 ڈسمبر (سیاست نیوز) سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) کی جانب سے 17 سالہ بی فارمیسی طالبہ عائشہ میراں کی نعش کو قبر سے نکال کر دوبارہ پوسٹ مارٹم کئے جانے کے تقریباً دو ہفتوں کے بعد اس طالبہ کے والدین نے کل ایک احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے سوال کیاکہ اس کیس کو دشا ایکٹ کے تحت کیوں نہیں لایا گیا۔ اس مقتولہ طالبہ کی ماں شمشاد بیگم نے کہاکہ ’’چونکہ میری بیٹی کے قتل میں ملوث اور اس کے لئے ذمہ دار لوگوں کو زبردست سیاسی پشت پناہی حاصل ہے اس لئے 12 سال بعد بھی اس کیس کے سلسلہ میں انصاف نہیں کیا گیا۔ نربھئے کے کیس میں کم از کم سات سال بعد عدالت نے اس کا فیصلہ دیتے ہوئے کہاکہ کمسن خاطی کو پھانسی دی جائے اور دشا کیس میں بھی ایسا ہی ہوا جس میں چند دن کے اندر انصاف کیا گیا۔ اُنھوں نے کہاکہ دوبارہ پوسٹ مارٹم کے دو ہفتوں بعد بھی سی بی آئی کے عہدیداروں یا مقامی اتھاریٹیز کی جانب سے کوئی لفظ نہیں کہا گیا۔ اُنھوں نے کہاکہ ’’ہمارے عمر رسیدہ ارکان خاندان دوبارہ پوسٹ مارٹم کے بالکل خلاف تھے۔ تاہم ہم نے محض سی بی آئی سے تعاون کرنے کے لئے اس کی اجازت دی۔ اگر ہم کو معلوم ہوتا کہ ہمارے پورے خاندان کو اس قدر ذہنی اذیت اور کرب کے بعد بھی اس پروسیجر میں تاخیر ہوگی تو ہم انھیں اس کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ انھوں نے یہ بھی کہاکہ عصمت ریزی اور قتل کے کیس کو دشا ایکٹ کے تحت چلانے چیف منسٹر کی ہدایت کے باوجود اس کیس میں سیاسی اثر و رسوخ ایک رکاوٹ بن گیا ہے۔ اس لئے اسے ابھی تک نئے قانون کے تحت غور نہیں کیا گیا۔ اس طالبہ کے والد اقبال باشا نے سوال کیاکہ پی ایم مودی کی جانب سے کئی غیر ضروری قوانین منظور کئے جارہے ہیں اور ان پر عمل درآمد کیا جارہا ہے تو وہ اس کی جانچ کیوں نہیں کررہے ہیں کہ آیا نربھئے، دشا ایکٹ یا خواتین کی عصمت ریزی اور قتل سے متعلق قوانین پر عمل درآمد کیا جارہا ہے یا نہیں؟ اور اس کیس کو فاسٹ ٹریک کورٹ میں چلانے ہماری درخواست پر کیوں غور نہیں کیا جارہا ہے۔