بیگم بازار میں صبح 9 تا5 بجے شام دوکانات کھلی رکھنے کا فیصلہ

   

کورونا کیسس میں اضافہ پر حیدرآباد کرانہ مرچنٹس کا رضاکارانہ اقدام

حیدرآباد۔ بیگم بازار کرانہ تاجرین نے ریاست میں کورونا وائرس کے بڑھتے ہو ئے مریضوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے تجارت کے اوقات میں رضاکارانہ طور پر تخفیف کا اعلان کیا ہے اور حیدرآباد کرانہ مرچنٹس اسوسیشن نے بیگم بازار میں صبح 9تاشام5بجے کاروبار کھلے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ریاست تلنگانہ کے مختلف مواضعات میں عوام کی جانب سے رضاکارانہ لاک ڈاؤن کے فیصلہ کے بعد اب بیگم بازار کے تاجرین نے شہر حیدرآباد میں کورونا وائر س کے مریضوں کی تعداد پر قابو پانے کیلئے اقدامات کے طور پر رضاکارانہ طور پر اپنی دکانات کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر حیدرآباد کرانہ مرچنٹس اسوسیشن مسٹر لکشمی نارائن راٹھی نے بتایا کہ بیگم بازار کے تاجرین کی جانب سے کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں ہونے والے اضافہ کو روکنے کیلئے یہ کوشش کی جا رہی ہے اور سابق میں بھی شہر حیدرآباد کے بازارو ںکو رضاکارانہ لاک ڈاؤن کی راہ دکھائی تھی تاکہ شہریو ںمیں کورونا وائرس سے بچنے کیلئے شعور اجاگر کیا جاسکے اورعوام ماسک کے استعمال کے علاوہ سماجی فاصلہ کو یقینی بنائے۔ انہو ںنے بتایا کہ اسوسیشن کی جانب سے کئے گئے فیصلہ میں صرف اوقات کار میں کمی کا فیصلہ نہیں ہے بلکہ بیگم بازار کے تجارتی اداروں میں سماجی فاصلہ کے عمل کے علاوہ ماسک کے استعمال کے لزوم کو یقینی بنانا شامل ہے۔ چند یوم قبل جگتیال کے ایک موضع میں مقامی پنچایت کی جانب سے رضاکارانہ لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا تھا اس کے بعد ابراہیم پٹنم کے ایک موضع میں عوام کی جانب سے کئے گئے فیصلہ کے بعد اب شہر حیدرآباد میں بیگم بازار کے تاجرین کے فیصلہ نے دیگر بازاروں میں تجارت کرنے والوں اس جانب غور کرنے کا موقع فراہم کیا ہے اور کہا جارہا ہے کہ بیگم بازار کے تاجرین کی جانب سے کئے گئے فیصلہ کے بعد دیگر تجارتی انجمنوں کی جانب سے بھی تجارتی اوقات کار میں تخفیف کے علاوہ سماجی فاصلہ اور ماسک کے لزوم کو یقینی بنانے کے اقدامات کا جائزہ لیا جانے لگا ہے۔ ریاستی حکومت یا محکمہ صحت کی جانب سے اس سلسلہ میں کوئی احکامات یا تجاویز جاری نہ کئے جانے کے باوجود بیگم بازار کے تاجرین کی جانب سے کئے گئے اس فیصلہ کے سلسلہ میں دریافت کرنے پر تاجرین کہا کہ ریاست میں حکومت کی جانب سے جو کوشش کی جا رہی ہے وہ اپنی جگہ ہے لیکن مریضوں کی تعداد میں جس رفتار سے اضافہ ہورہا ہے اسے دیکھتے ہوئے تاجرین نے یہ فیصلہ کیا ہے۔