بی آر ایس سیکولر یا بی جے پی کا خوف

   

اسمبلی اور کونسل میں اب صرف محمود علی اور شکیل عامر حکومت کے نمائندے
حیدرآباد۔9۔مارچ۔(سیاست نیوز) تلنگانہ میں برسراقتدار بھارت راشٹر سمیتی نے سیکولر ازم کا مکھوٹا اتا رپھینکا ہے یا اب بی آر ایس کو ریاست کے مسلم رائے دہندوں کے ووٹ نہیں چاہئے ! سربراہ بھارت راشٹر سمیتی و چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ تشکیل تلنگانہ سے قبل اور تشکیل تلنگانہ کے بعد سے مسلسل یہ کہتے آرہے ہیں کہ ریاست میں موجود ہندو۔ مسلمان ان کی دو آنکھیں ہیںلیکن دوسری معیاد کے لئے اقتدار حاصل کرنے کے بعد سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ان کی ایک آنکھ ضائع ہوچکی ہے۔تلنگانہ قانون ساز کونسل میں مسلم نمائندگی کے معاملہ میں ریاستی حکومت کی جانب سے اختیار کردہ موقف نے یہ واضح کردیا ہے کہ بھارت راشٹر سمیتی کسی بھی مسلم نمائندہ کو تلنگانہ قانون ساز کونسل میں نمائندگی فراہم کرنے کے حق میں نہیں ہے ۔ کے چندر شیکھر راؤ نے تشکیل تلنگانہ سے قبل حبیب عبدالرحمن العطاس مرحوم کے علاوہ جناب محمد محمود علی کو قانون ساز کونسل کا رکن بنایا تھا اور تشکیل تلنگانہ کے بعد ایک وقت ایسا تھا کہ تلنگانہ قانون ساز کونسل میں تلنگانہ راشٹرسمیتی کے تین ارکان قانون ساز کونسل رہے جن میں جناب محمد محمود علی ‘ جناب الحاج محمد سلیم اور جناب محمد فاروق حسین شامل تھے اور اس وقت کانگریس کے رکن قانون ساز کونسل کی حیثیت سے جناب محمد علی شبیر بھی کونسل میں موجود تھے لیکن اب تلنگانہ قانون ساز کونسل کی جملہ 40نشستوں پر محض تین مسلم ارکان قانون ساز کونسل رہ جائیں گے جن میں مجلس اتحادالمسلمین کے 2اور بھارت راشٹر سمیتی کے 1 رکن قانون ساز کونسل جناب محمد محمود علی شامل ہیں۔ بھارت راشٹرسمیتی نے جناب الحاج محمد سلیم اور جناب محمد فریدالدین کی معیاد کی تکمیل کے بعد دونوں کو ہی نظرانداز کردیا اور ان کی جگہ کسی اور مسلم نمائندہ کو بھی قانون سازکونسل کی رکنیت فراہم نہیں کی گئی بلکہ آئندہ مخلوعہ نشستوں میں مسلم نمائندگی کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اس مرتبہ بھی گورنر کوٹہ سے منتخب ہوتے ہوئے نمائندگی کرنے والے محمد فاروق حسین کی معیاد مکمل ہونے جا رہی ہے لیکن ان کی معیاد میں توسیع یا ان کی جگہ کسی اور مسلم نمائندہ کو موقع فراہم کئے جانے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ تحریک تلنگانہ کے دوران جدوجہد کا حصہ بننے والے مسلم قائدین جنہیں مسلسل نظرانداز کیا جا رہاہے وہ اب بغاوت پر اترآئے ہیں اور پارٹی کی جانب سے مسلسل نظرانداز کئے جانے کے خلاف میدان میں اترنے پر غور کر رہے ہیں۔ تلنگانہ راشٹرسمیتی کے قیام اور تحریک تلنگانہ میں سرگرم کردار ادا کرنے والے جناب محمد سلطان قادری اور جناب ظہور الدین یوسفی وہ سینیئر قائدین ہیں جو اپنے جائز مقام کے لئے اب بھی جدوجہد کر رہے ہیں۔ تحریک تلنگانہ کے دوران چیف منسٹر کے چندر شیکھرراؤ نے تلنگانہ عوام کی عزت نفس کی دہائی دیتے ہوئے علحدہ ریاست کی مہم میں شدت پیدا کی تھی اور اب جو صورتحال ہے اس کے مطابق بھارت راشٹر سمیتی میں موجود اقلیتی قائدین اپنی عزت نفس کی جدوجہد شروع کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں کیونکہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد پارٹی نے پارٹی کے قیام کے ساتھ سے کے سی آر کے شانہ بشانہ جدوجہد کرنے والے قائدین بالخصوص شہرحیدرآباد کے اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے قائدین کو نظرانداز کرتے ہوئے اب یہ حالات پیدا کردیئے ہیں کہ تلنگانہ قانون ساز کونسل میں ٹی آر ایس کے محض ایک رکن کونسل رہ جائیں گے اور اسمبلی میں ایک رکن اسمبلی باقی رہ گئے ہیں۔ بھارت راشٹر سمیتی نے گذشتہ اسمبلی انتخابات کے دوران ٹکٹ کی تقسیم کے معاملہ میں کی گئی ناانصافی کے سلسلہ میں دریافت کرنے پر یہ دعویٰ کیا تھاکہ وہ نامزد عہدوں پر اقلیتوں کی نمائندگی کو یقینی بنائے گی لیکن بتدریج تلنگانہ قانون ساز کونسل کی رکنیت رکھنے والے مسلم چہروں کو بھی ختم کردیا گیا ہے جو کہ بی آر ایس اور کے سی آر کے سیکولر کردار کو مشتبہ بنارہا ہے۔م