ایک ایسے وقت جبکہ سارے ملک میں فرقہ پرستی کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا جارہا ہے، بی جے پی اور اس کی محاذی تنظیموں بالخصوص اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس ایسی حکمت عملی پر کام کررہی ہے، جس کے ذریعہ مذہب کے نام پر رائے دہندوں کو تقسیم کرکے اپنا اُلو سیدھا کیا جائے۔ حال ہی میں دہلی یونیورسٹی کے ہندی پروفیسر اپوروآنند نے بہت خوب کہا ہے کہ بی جے پی حکومت میں ہر اس شخص کو ملک دشمن ،عوام دشمن اور ہندو دشمن کہا جارہا ہے جو عوام کے حق ، عوامی مفادات اور بالخصوص ملک کے تحفظ کی بات کرتا ہے۔ بہرحال حالیہ عرصہ کے دوران بعض ایسی جماعتوں کی نشاندہی کی گئی جو ایک طرح سے بی جے پی کی B ٹیم کے طور پر کام کرتے ہوئے بی جے پی کو فائدہ اور کانگریس کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ انڈین ایشین نیوز سرویس (آئی اے این ایس) کی ایک رپورٹ منظر عام پر آئی جس میں چیف منسٹر تلنگانہ چندر شیکھر راؤ کی ٹی آر ایس کے بارے میں صاف صاف طور پر کہا گیا کہ کے سی آر نے حال ہی میں اپنی پارٹی ٹی آر ایس کا نام تبدیل کرتے ہوئے اسے ’’بی آر ایس‘‘ (بھارت راشٹرا سمیتی) کردیا اور انہوں نے مختلف ریاستوں میں سرگرم وہاں کی مقامی سیاسی جماعتوں سے ربط شروع کیا۔ دہلی میں حال ہی میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے پراعتماد انداز میں کہا کہ ان کی پارٹی کا گلابی پرچم لال قلعہ پر لہرائے گا۔ اس طرح انہوں نے 2024ء کے انتخابات کیلئے تیسرے محاذ کے قیام کیلئے تیار رہنے کا اشارہ دیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر بی آر ایس سے کس کو فائدہ ہوگا اور کس کو نقصان؟ اگر دیکھا جائے تو بی آر ایس سے بی جے پی کو کوئی نقصان نہیں ہونے والا ہے کیونکہ اس کا اپنا ٹھوس ووٹ بینک ہے۔ ہاں!بی آر ایس کانگریس کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ کے سی آر کے اتحاد کو جو ووٹ حاصل ہوں گے، اس سے کانگریس کے امکانات پر اثر پڑے گا۔ اس کے علاوہ 2024ء کے عام انتخابات میں ممتا بنرجی کیا موقف اختیار کرتی ہے، وہ بھی کافی اہمیت رکھتا ہے جس کا صرف ار صرف گذرتے وقت کے ساتھ اندازہ ہوگا ۔ واضح رہے کہ چندر شیکھر راؤنے 14 ڈسمبر 2022ء کو دہلی میں بی آر ایس کے دفتر کا افتتاح انجام دیا۔ اس سے قبل انہوں نے کئی اہم قائدین سے ملاقات کی جن میں چیف منسٹر بہار نتیش کمار، ڈپٹی چیف منسٹر تیجسوی یادو اور چیف منسٹر پنجاب بھگونت مان شامل ہیں۔ آپ کو بتادیں کہ کے سی آر مختلف پلیٹ فارمس پر مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں۔ بی آر ایس کے دفتر کی افتتاحی تقریب میں متعدد کسان تنظیموں کے قائدین نے بھی شرکت کی اور ان کسان قائدین کی موجودگی میں کے سی آر نے اب کی بار کسان سرکار کا نعرہ لگایا۔ آثار و قرآئن سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ کے سی آر 2024ء کے عام انتخابات کیلئے تیسرے قومی محاذ کے قیام کی تیاریاں کررہے ہیں اور یہی سوال سیاسی حلقوں میں گونج رہا ہے۔ سیاسی ماہرین کا ایقان ہے کہ کے سی آر مسلسل کئی ریاستوں کے چیف منسٹروں اور بے شمار سیاسی قائدین سے ملاقات کرتے رہے ہیں تاکہ تیسرے محاذ کی تیاری کرسکیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ان انتخابات میں کانگریس کو بہت نقصان ہوسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ فرنٹ، بی جے پی ووٹ بینک کو متاثر نہ کرے لیکن یقینا اُن رائے دہندوں پر اثرانداز ہوگا جو کانگریس اور بی جے پی میں سے کس کو ووٹ دیں، اس معاملے میں کشمکش کا شکار ہوں گے۔ ان حالات میں ایسے ووٹرس بی آر ایس کے زیرقیادت تیسرے محاذ کو کانگریس کا متبادل تصور کرکے اس کے حق میں ووٹ ڈالیں گے اور اس سے کانگریس کا ہی نقصان ہوگا۔ آپ کو بتادیں کہ اترپردیش اور بہار میں یادو، مسلم اور او بی سی رائے دہندے اکھیلیش یادو اور نتیش کمار کے قریب ہیں اور توقع ہے کہ نتیش کمار اور اکھیلیش یادو بی آر ایس سے اتحاد کرتے ہوئے محاذ تشکیل دیں گے۔ اس سے بھی کانگریس کو زیادہ نقصان ہوگا جو اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے جبکہ مذکورہ دونوں ریاستوں میں بی جے پی کا اپنا ووٹ بینک ہے۔ سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ کل ہند مجلس اتحادالمسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی کی طرح کے سی آر بھی بی جے پی کیلئے کانگریس کے ووٹ کاٹنے کے ذریعہ کے طور پر کام کریں گے۔ ویسے بھی فی الوقت کے سی آر ایک قومی حکمت عملی طئے کرنے میں مصروف ہیں۔ اگر ان کی حکمت عملی کام کرتی ہے تو پھر وہ ملک کی موجودہ سیاست میں ایک بڑی تبدیلی لاسکتی ہے۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے بی آر ایس کو ایک قومی پارٹی قرار دیا ہے جس کے بعد ہی کے سی آر نے 9 ڈسمبر کو حیدرآباد میں پارٹی کا گلابی پرچم لہرایا۔ کے سی آر نے اس موقع پر ’’اب کی بار کسان سرکار‘‘ جیسا نعرہ لگایا اور اقتصادی، ماحولیاتی، آبی، بجلی اور خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے مخصوص پالیسیوں پر زور دیا۔ ان تمام اقدامات سے اس بات کے مضبوط اشارے ملتے ہیں کہ کے سی آر تیسرے محاذ کی تشکیل کیلئے کافی سرگرم ہیں۔ ٭