٭ کویتا کے سنگین الزامات تلنگانہ کی سیاست میں نیا موڑ
٭ کالیشورم ، فارمولہ ای کار ریسنگ ، فون ٹیاپنگ ، بھیڑ بکریوں کا اِسکام
٭ کرپشن کے سایے ، تحقیقات کا دباؤ
نعیم وجاہت
ریاست تلنگانہ کی سیاست اس وقت غیرمعمولی ہلچل کا شکار ہے، کبھی ناقابل شکست سمجھی جانے والی بھارت راشٹرا سمیتی (BRS) آج اندرونی بحران ، بدعنوانی کے الزامات اور عوامی دباؤ کے طوفان میں گھری ہے۔ ریونت ریڈی زیرقیادت کانگریس حکومت جارحانہ حکمت عملی کے ساتھ ہر محاذ پر بی آر ایس کو گھیرنے کی کوشش کررہی ہے جبکہ دوسری طرف بی جے پی اپنی زمین کو مضبوط کرنے کیلئے موقع کا بھرپور فائدہ اُٹھا رہی ہے۔ عام انتخابات میں اقتدار سے محرومی اور لوک سبھا انتخابات میں انتہائی کمزور مظاہرے کے بعد بی آر ایس مشکلات کے بھنور میں پھنس گئی ہے۔ اس کے بعد پارٹی کے 10 ارکان اسمبلی نے بی آر ایس سے بے وفاتی کرتے ہوئے کانگریس کا دامن تھام لیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس معاملے میں بی آر ایس بڑی شدت سے قانونی جنگ لڑرہی ہے۔ سپریم کورٹ نے ان ارکان اسمبلی کے معاملے میں فیصلہ کرنے کی اسپیکر اسمبلی کو تین ماہ کی مہلت دی ہے۔ اسپیکر نے بھی ان ارکان اسمبلی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ضابطے کی کارروائی کی ہے۔ بی آر ایس سربراہ و سابق چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی بیٹی ایم ایل سی نے اپنی تنقیدوں، الزامات اور انکشافات کے ذریعہ بی آر ایس میں بھونچال پیدا کردیا تھا جس کے بعد انہیں بی آر ایس سے معطل کردیا گیا۔ پارٹی کا کوئی بھی قائد کویتا کو پارٹی سے معطل کرنے پر ناراض نہیں ہوا اور نہ ہی کسی نے ان کی تائید و حمایت کی ہے۔ پہلے سے ناراض اور پارٹی کی سرگرمیوں سے دُور رہنے والی کویتا نے معطلی کے دوسرے ہی دن بی آر ایس اور تلنگانہ قانون ساز کونسل کی رکنیت سے استعفی دیتے ہوئے سیاسی منظر نامے میں سسپنس پیدا کردیا۔ انہوں نے پارٹی قیادت کے خلاف علم بغاوت اٹھاتے ہوئے کالیشورم پراجیکٹ میں مبینہ بدعنوانیوں کیلئے سابق ریاستی وزیر ہریش راؤ اور بی آر ایس کے سابق رکن راجیہ سبھا سنتوش کے خلاف سنگین الزامات عائد کردیئے اور انہیں عوامی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ یہ الزامات صرف پارٹی کیلئے نہیں بلکہ ریاستی سیاست کیلئے بھی ایک دھماکہ خیز ثابت ہوئے۔ حکمران کانگریس، بی جے پی اور کمیونسٹ پارٹی نے موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بی آر ایس کو اپنی تنقیدوں کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ اپوزیشن میں رہنے کے دوران کانگریس نے کالیشورم پراجیکٹ کی تعمیر میں بڑے پیمانے کی بدعنوانیاں ہونے اور اقتدار حاصل ہونے پر اس کی تحقیقات کرانے کا اعلان کیا تھا۔ اقتدار حاصل ہونے پر چیف منسٹر ریونت ریڈی نے سابق جج جسٹس پی سی گھوش کی قیادت میں تحقیقاتی کمیشن تشکیل دی، جن کی دی گئی رپورٹ کو اسمبلی میں پیش کیا گیا اور مباحث کے بعد اس کی تحقیقات سی بی آئی سے کرانے کا اعلان کیا گیا۔ اس اعلان نے بی آر ایس کو دفاعی پوزیشن میں ڈھکیل دیا۔ دوسری جانب فارمولہ ای کار ریسنگ کیس میں سابق وزیر کے ٹی آر کے خلاف بھی شکنجہ کسا جارہا ہے۔ اینٹی کرپشن بیورو کے عہدیداروں نے گورنر سے پروسیکیوشن کی اجازت طلب کی ہے اور اگر منظوری مل جاتی ہے تو چارج شیٹ داخل کرنے کے بعد گرفتاری کا امکان بھی ہے۔ یہی نہیں فون ٹیاپنگ کیس اور بھیڑ بکریوں کی تقسیم میں بے قاعدگیوں (شیپ اسکام) کی تحقیقات میں بھی تیزی پیدا کردی گئی ہے۔ اس طرح بی آر ایس کے خلاف ایک ساتھ کئی محاذ کھل چکے ہیں ۔ ان سب کے درمیان ریاست میں عوامی مسائل بھی شدت اختیار کررہے ہیں۔ بڑھتی مہنگائی، بیروزگاری، یوریا کی قلت، بارش اور سیلاب کی تباہ کاریاں، گروپ۔I امتحان کی میرٹ لسٹ کو ہائیکورٹ کی جانب سے منسوخ کرنے کے بعد طلبہ اور بے روزگار نوجوان احتجاجی رُخ اختیار کررہے ہیں۔ دوسرے مسائل اور پریشانیاں عوامی بحث کا حصہ بن چکی ہیں۔ کانگریس حکومت ان مسائل کو حل کرنے کے وعدوں کے ساتھ عوام میں جگہ بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ ان کے خلاف بی آر ایس آواز اُٹھا رہی ہے، مگر اس معاملے میں بی آر ایس کے ورکنگ پریسیڈنٹ کے تارک راما راؤ اور سابق وزیر ہریش راؤ پیش پیش ہیں مگر پارٹی کے دوسرے قائدین سرگرم نہیں ہیں۔ ایسے حالات میں سیاسی و قانونی مشکلات کے ساتھ ساتھ انتخابی دباؤ بی آر ایس پارٹی کیلئے بڑا چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ جوبلی ہلز اسمبلی حلقہ کے ضمنی انتخاب میں کامیابی حاصل کرنا بی آر ایس پارٹی کیلئے بہت بڑا امتحان ہے۔ اس کے علاوہ پارٹی چھوڑنے والے 10 ارکان اسمبلی کا مسئلہ اور آنے والے بلدی انتخابات بھی بی آر ایس کے سامنے کھڑے بڑے سوالیہ نشان ہیں۔ اس دباؤ میں بی آر ایس بڑھتی ہوئی مشکلات کا کوئی حل تلاش نہ کرسکی تو تلنگانہ کی سیاست میں اس کی پوزیشن مزید کمزور ہوسکتی ہے۔ بی آر ایس کو نہ صرف تحقیقات اور قانونی کارروائیوں کا سامنا ہے بلکہ عوامی اعتماد کی بحالی بھی ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ تلنگانہ کی سیاست میں یہ ایک فیصلہ کن موڑ ہے جہاں بی آر ایس کی حکمت عملی اور قیادت کا امتحان اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ آنے والے چند ماہ پارٹی کے مستقبل کا تعین کریں گے کہ آیا یہ مشکلات عارضی ہیں یا بی آر ایس کے زوال کی کہانی کا آغاز۔ تلنگانہ کی سیاست میں یہ ایک فیصلہ کن مرحلہ تو ضرور ہے۔ کویتا کے الزامات، حکومت کی جارحانہ حکمت عملی نے بی آر ایس کو دفاعی خانے میں ڈھکیل دیا ہے۔ کویتا کے بیانات نے کانگریس اور بی جے پی کو وہ مواد فراہم کردیا ہے جس کی بنیاد پر وہ کھل کر بی آر ایس پر تنقید کررہے ہیں۔ اُدھر عوام بھی یہ سوال کررہے ہیں کہ اگر کرپشن کے الزامات درست ہیں تو اس کا جواب کیوں نہیں دیا جارہا ہے۔ تلنگانہ کی سیاست اس وقت نہ صرف بی آر ایس بلکہ ریاست کے سیاسی منظر نامے کو بدلنے کی راہ پر گامزن ہے۔ اگر تحقیقات میں سنگین حقائق سامنے آتے ہیں تو بی آر ایس کیلئے یہ بحران عارضی ثابت نہیں ہوگا بلکہ اس کے سیاسی وجود پر براہ راست اثر ڈالے گا۔