بی آر ایس میں ٹکٹ کیلئے قائدین میں رسہ کشی ، پارٹی قیادت فکر مند

   

40 موجودہ ارکان اسمبلی کی کارکردگی مایوس کن ، نئے دعویدار اور سینئیر قائدین کے وارث میدان میں
حیدرآباد ۔ 20 ۔ فروری : ( سیاست نیوز ) : جیسے جیسے ریاست میں اسمبلی انتخابات قریب آرہے ہیں سیاسی حلقوں میں سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں ۔ سب سے زیادہ حکمران جماعت بی آر ایس میں ہلچل دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ ایک طرف موجودہ ارکان اسمبلی دوسری طرف کافی عرصہ سے انتظار کرنے والے قائدین ، پارٹی میں نئے شامل ہونے والے قائدین اور پارٹی کے سینئیر قائدین کے وارث سب کے سب انتخابات پر اپنی توجہ مرکوز کردی ہے ۔ موجودہ ارکان اسمبلی دوبارہ ٹکٹ کی دعویداری پیش کررہے ہیں ۔ دوسرے قائدین اپنی اپنی قسمت آزمانے کے لیے جی توڑ کوشش کررہے ہیں ۔ ارکان پارلیمنٹ ، ارکان قانون ساز کونسل اور نامزد عہدوں پر خدمات انجام دینے والے بیشتر قائدین اس مرتبہ اسمبلی کے لیے مقابلہ کرنے کے خواہش مند ہیں ۔ ٹکٹ کی دعویداری بڑھ جانے سے بی آر ایس میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر پہونچ چکی ہیں ۔ چیف منسٹر کے سی آر نے کمیونسٹ جماعتوں سے اتحاد کرنے کا اشارہ دیا ہے ۔ جس کے بعد بی آر ایس کے قائدین میں کسی کو ٹکٹ ملے گا اور کسی کو مایوسی ہاتھ آئے گی اس پر مباحث شروع ہوگئی ہے ۔ چیف منسٹر کے سی آر اس مرتبہ قومی سیاست میں سرگرم رول ادا کرنے کا پہلے ہی فیصلہ کرچکے ہیں ۔ اس لیے انہیں اپنی سرزمین تلنگانہ میں ثابت قدم رہنے کے لیے تمام زاویوں کا جائزہ لے رہے ہیں ۔ تلنگانہ ریاست کے 119 کے منجملہ 104 اسمبلی حلقوں پر بی آر ایس کی نمائندگی ہے ۔ چیف منسٹر کے سی آر آئندہ انتخابات میں مسلسل تیسری مرتبہ کامیابی حاصل کرتے ہوئے ہیٹ ٹرک کرنے کا منصوبہ بندی تیار کررہی ہیں ۔ ان کی ساری توجہ پارٹی کے استحکام پر مرکوز ہوگئی ہے ۔ بی آر ایس کو طاقتور بنانے کے لیے 65 لاکھ کی رکنیت سازی کی گئی ہے ۔ اس طرح پارٹی میں ٹکٹ کی مسابقت میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے ۔ 40 اسمبلی حلقوں میں موجودہ ارکان اسمبلی کے علاوہ دوسرے طاقتور قائدین کے درمیان ٹکٹ کے لیے رسہ کشی شروع ہوگئی ہے ۔ چند اسمبلی حلقوں میں مقامی ارکان اسمبلی سے عوام ناراض ہیں ۔ جس سے دوسرے قائدین انہیں ٹکٹ حاصل ہونے کی امید کررہے ہیں اور اپنی جانب سے پارٹی پروگرامس کا بھی اہتمام کررہے ہیں ۔ کئی ایسے اسمبلی حلقہ ہیں جہاں دوسری پارٹیوں کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کرنے والے قائدین ٹی آر ایس میں شامل ہوگئے ہیں ۔ ان کے درمیان بی آر ایس کے سابق ارکان اسمبلی کے درمیان سرد جنگ چل رہی ہے اور پارٹی دو یا تین گروپس میں تقسیم ہوگئی ہے ۔ قائدین کے درمیان اختلافات سے پارٹی گروپس میں تقسیم ہوگئی ہے ۔ اسپیکر اسمبلی پوچارام سرینواس ریڈی ، صدر نشین تلنگانہ قانون ساز کونسل جی سکھیندر ریڈی کے بشمول پارٹی کے دیگر سینئیر قائدین اپنے وارثوں کو انتخابی میدان میں اتارنے کی تیاری کررہے ہیں ۔ موجودہ ارکان پارلیمنٹ میں حلقہ پارلیمنٹ میدک کی نمائندگی کرنے والے رکن پارلیمنٹ کتہ پربھاکر ریڈی اسمبلی حلقہ دوباک سے مقابلہ کرنے کے لیے تیاری کررہے ہیں ۔ اس طرح دیگر ارکان پارلیمنٹ ایم کویتا ، پی راملو ، رنجیت ریڈی ، وزیر ستیہ وتی راتھوڑ ، ارکان قانون ساز کونسل کڈیم سری ہری ، ایس راجو ، پی کوشک ریڈی ، پی سرینواس ریڈی ، ایس سبھاش ریڈی کے علاوہ دوسرے اسمبلی انتخابات کی تیاریاں کررہے ہیں ۔ کمیونسٹ جماعتوں سے اتحاد یا مفاہمت کی صورت میں کونسے اسمبلی حلقہ ان کے حصے میں جائیں گے اس پر بھی مباحث شروع ہوگئی ہے ۔ بی آر ایس کی حلیف جماعت مجلس نے اس مرتبہ 50 اسمبلی حلقوں پر مقابلہ کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اس کے اثرات کیا ہوں گے اس پر بھی بی آر ایس حلقوں میں مباحث شروع ہوچکی ہے ۔ چیف منسٹر کے سی آر پارٹی میں جاری سرگرمیوں کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں اور مختلف اداروں کی خدمات سے استفادہ کرتے ہوئے ریاست کی سیاسی صورتحال ، حکومت کی کارکردگی ارکان اسمبلی کی کارکردگی حکومت کی اسکیمات اور اس کی عمل آوری کا سروے کراتے ہوئے جائزہ لے رہے ہیں ۔ چیف منسٹر کے سی آر تیسری مرتبہ کامیابی حاصل کرتے ہوئے جنوبی ہند میں تاریخ بنانے کی حکمت عملی تیار کرتے ہوئے کام کررہے ہیں ۔ سال 2014 اور 2018 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے اسمبلی حلقوں اور ایک مرتبہ بھی کامیابی حاصل نہ کرنے والے حلقوں کو علحدہ علحدہ تقسیم کرتے ہوئے کام کیا جارہا ہے ۔ ایس سی ، ایس ٹی محفوظ حلقوں اور بی جے پی ارکان پارلیمنٹ کے حدود کے حلقوں پر کامیابی حاصل کرنے کے لیے کام کیا جارہا ہے ۔۔ ن