ایک دوسرے کی مدد کیلئے خفیہ مفاہمت، کانگریس اصل نشانہ، بی جے پی قائدین کا کانگریس کی طرف جھکاؤ
حیدرآباد۔/2 جولائی، ( سیاست نیوز) تلنگانہ اسمبلی انتخابات جیسے جیسے قریب آرہے ہیں نئی سیاسی صف بندیاں منظر عام پر آنے لگی ہیں۔ ابتداء میں اسمبلی انتخابات میں سہ رخی مقابلہ کی پیش قیاسی تھی لیکن حالات میں اچانک تبدیلی آئی اور بی آر ایس نے بی جے پی کے ساتھ خفیہ مفاہمت کرکے تیسری بار اقتدار کو یقینی بنانے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر تلنگانہ میں کسی بھی صورت میں ہیٹ ٹرک کا من بناچکے ہیں چاہے اس کیلئے بی جے پی سے مفاہمت کیوں نہ کرنی پڑے۔ بی آر ایس کے قیام کے ذریعہ بظاہر قومی سطح پر بی جے پی کی مخالفت کا اظہار کیا گیا لیکن وقت گذرنے کے ساتھ یہ عیاں ہوچکا کہ 2024 انتخابات میں بی جے پی کو فائدہ پہنچانے بی آر ایس کئی ریاستوں میں مقابلہ کرسکتی ہے۔ کرناٹک میں کانگریس کی کامیابی کے بعد تلنگانہ کا سیاسی منظر تبدیل ہوگیا اور بی جے پی از خود تیسرے مقام پر پہنچ چکی ہے۔ پارٹی قائدین کے داخلی اختلافات نے بہتر مظاہرہ کے امکانات کو متاثر کیا ۔ اقتدار سے محرومی کے خوف نے کے سی آر کو بی جے پی سے خفیہ مفاہمت کیلئے مجبور کردیا جس کے تحت بی جے پی تلنگانہ میں پوری شدت کے ساتھ مقابلہ نہیں کریگی بلکہ نشستوں میں اضافہ کیلئے مقابلہ کیا جائیگا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق بی جے پی تلنگانہ میں بی آر ایس کے اقتدار کی راہ ہموار کرے گی اور انتخابی مہم میں کانگریس کو نشانہ بنایا جائیگا۔ اسمبلی انتخابات میں تعاون پر بی آر ایس لوک سبھا انتخابات میں نہ صرف تلنگانہ بلکہ مہاراشٹرا، راجستھان، مدھیہ پردیش اور کرناٹک میں کانگریس کو نقصان پہنچاتے ہوئے بی جے پی کی کامیابی کی راہ ہموار کرے گی۔ ریاستی اور مرکزی سطح پر ایک دوسرے کی مدد کیلئے دونوں پارٹیوں میں خفیہ مفاہمت نے پارٹی کے سینئر قائدین کو ناراض کردیا ہے اور کئی قائدین اپنے سیاسی مستقبل کیلئے کانگریس میں شمولیت کی تیاری کررہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ کانگریس سے شامل ہونے والے کئی سینئر قائدین نے ریونت ریڈی سے ربط قائم کرتے ہوئے شمولیت کی صورت میں پارٹی ٹکٹ یا پھر کسی اہم پوزیشن کی شرط رکھی ہے۔ بی جے پی اور بی آر ایس میں خفیہ معاہدہ کو عوام میں برسرعام کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر تنقیدوں کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بی جے پی قائدین نے کے سی آر اور ان کے افراد خاندان کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہے تاہم انتخابات سے عین قبل بی جے پی کا اصل نشانہ کانگریس ہوگی۔ بی آر ایس کو اقتدار سے روکنے کیلئے صرف کانگریس ہی اہم رول ادا کرسکتی ہے لہذا کے سی آر نے بی جے پی کی مدد سے کانگریس کو کمزور کرنے کی حکمت عملی تیار کی ہے۔ ذرائع کے مطابق بی جے پی کو اسمبلی میں موجودہ تین نشستوں کے علاوہ مجموعی طور پر تقریباً 10 نشستوں پر کامیابی کا بھروسہ دلایا گیا ہے۔ موجودہ صورتحال میں بی جے پی کیلئے 10 نشستوں پر آزادانہ طور پر کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے لہذا ایک دوسرے کی ضرورت کے تحت مفاہمت سے اتفاق کیا گیا۔ جس طرح بی آر ایس کو تلنگانہ میں تیسری مرتبہ اقتدار کی خواہش ہے اسی طرح مرکز میں نریندر مودی اقتدار کی ہیٹ ٹرک کرنا چاہتے ہیں۔ پہلی مرتبہ 18 سے زائد اپوزیشن جماعتوں نے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے بی جے پی سے مقابلہ کی تیاری کی ہے۔ اپوزیشن اتحاد سے کے سی آر کی دوری خود اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں پارٹیوں میں ایک دوسرے کے اقتدار کو بچانے کیلئے مفاہمت ہوچکی ہے۔ بی آر ایس کے ورکنگ پریسیڈنٹ کے ٹی راما راؤ نے یہ کہتے ہوئے اپوزیشن اتحاد کو نشانہ بنایا تھا کہ کسی ایک شخص یا پارٹی کو اقتدار سے بیدخل کرنے کے مقصد سے اتحاد ٹھیک نہیں ہے۔ کے ٹی آر نے بالواسطہ طور پر مودی حکومت کے خلاف اپوزیشن اتحاد کی مخالفت کی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ تلنگانہ کے رائے دہندے بی آر ایس اور بی جے پی کے خفیہ اتحاد پر کیا فیصلہ دیں گے۔ دونوں پارٹیاں بظاہر ایک دوسرے کے خلاف مہم چلانے کا ڈرامہ کریں گی لیکن حقیقت میں یہ مخالفت نورا کشتی کے علاوہ کچھ نہیں رہے گی۔ر