بی ایس پی کی ضمنی انتخابات میں قسمت آزمائی

   

لکھنؤ ۔ 24 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) بہوجن سماج پارٹی ایک لمبے عرصے کے بعد ضمنی انتخاب میں قسمت آزما رہی ہے ۔ پارٹی اب تک ضمنی انتخابات میں حصہ نہیں لیتی تھی لیکن ریاستی اسمبلی میں اپنی طاقت بڑھانے کے لئے مایاوتی کو ضمنی الیکشن میں اترنا پڑرہا ہے ۔ سال 2017 میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں بی ایس پی کو صرف 19 سیٹیں ملی تھیں اور اب کم ہوکر 18 ہی رہ گئی ہیں۔ضمنی انتخابات میں حصہ لے کر مایاوتی یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہیں کہ ریاست میں بی جے پی کا مقابلہ کانگریس یا ایس پی نہیں بلکہ صرف بی ایس پی ہی کرسکتی ہے ۔ بی ایس پی نے ایس پی کے ساتھ اتحاد کر کے لوک سبھا کی دس سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی جبکہ سال 2014 کے عام انتخابات میں اس کا کھاتہ بھی نہیں کھل سکا تھا۔وہیں دوسری جانب بی ایس پی کے نچلی سطح پر کام کرنے والے لیڈروں کے پارٹی چھوڑنے اور نکالے جانے کی وجہ سے پارٹی کچھ کمزور ہوئی ہے ۔ بلیا میں مقبول لیڈر مٹھائی لال ایس پی میں شامل ہوگئے ہیں تو کوشامبی اور الہ آباد کے ضلع صدور کو مایاوتی نے پارٹی مخالف سرگرمیوں کے پاداش میں بی ایس پی سے برخاست کردیا ہے ۔ بجنور کے سابق رکن اسمبلی رچا ویرا کو بھی مایاوتی نے دو دن قبل پارٹی سے باہر نکال دیا۔

کشمیر میں تعلیمی سرگرمیوں کی معطلی کے باوجود
نجی تعلیمی اداروں کا بھاری فیس کا مطالبہ
سری نگر، 24 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) وادی میں اگرچہ گزشتہ زائد از ڈیڑھ ماہ سے تعلیمی سرگرمیاں بدستور متاثر ہیں لیکن نجی اسکولوں کے مالکان والدین سے ٹیویشن فیس کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کی فیس ادا کرنے کا بھی مطالبہ کررہے ہیں۔مختلف نجی اسکولوں میں زیر تعلیم طلباء کے والدین نے نجی اسکولوں کی انتظامیہ پر ان سے ٹیویشن فیس کے ساتھ ساتھ اسکول بس کی فیس ادا کرنے کا بھی مطالبہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے ۔بلال احمد نامی ایک والد نے کہا کہ میں جب ٹیویشن فیس جمع کرنے گیا تو میں حیران ہوگیا جب مجھ سے اسکول بس کی فیس ادا کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پانچ اگست سے ایک دن بھی اسکول کی گاڑی نہیں چلی’۔شوکت احمد نامی ایک والد جس کا بیٹا سری نگر کے ایک نامور نجی اسکول میں زیر تعلیم ہے ، اس نے کہا کہ مجھ سے بھی ٹویشن فیس کے علاوہ اسکول بس کی فیس بھرنے کا مطالبہ کیا گیا جس پر میں نے اعتراض کیا۔ان کا کہنا تھا کہ میں اسکول ٹیویشن فیس بھرنے کے لئے گیا جو ان کا حق ہے کیونکہ انہیں بھی اساتذہ کو تنخواہ دینا ہے لیکن وہاں مجھ سے بس کی فیس ادا کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا جس پر میں نے اعتراض کیا اور بس فیس ادا کرنے سے صاف انکار کیا کیونکہ جب گاڑی گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران کبھی آئی ہی نہیں تو اس کا فیس کیونکر واجب الا ادا ہوگیا’۔