بی بی سی کی دستاویزی فلموائس چانسلرس کی غیرت کہاں گئی

   

پروفیسر اپورو آنند
بی بی سی نے گجرات فسادات اور ان فسادات میں اُس وقت کے چیف منسٹر اور موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کے بارے میں دستاویزی فلم تیار کی اور پھر اسے دو حصوں میں جاری کردیا۔ اس فلم میں گجرات فسادات کیلئے مودی جی کو ذمہ دار قرار دیا گیا۔ ہماری حکومت کو غصہ آیا اور پھر اس نے بی بی سی کی ڈاکیومنٹری کی کہیں بھی نمائش پر پابندی عائد کردی، خاص طور پر ملک کی باوقار جامعات میں اس فلم کی نمائش اور اسے دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ بی بی سی کی اس دستاویز فلم پر جہاں بی جے پی حکومتوں (مرکزی و ریاستی حکومتوں) کو غصہ آیا، وہیں کچھ یونیورسٹیز کے وائس چانسلرس بھی برہم ہوگئے۔ ان لوگوں نے بھی اپنی اپنی یونیورسٹی میں مذکورہ فلم کی نمائش پر نہ صرف پابندی عائد کی بلکہ انتباہ دیا کہ یونیورسٹی کیمپس میں اگر کسی نے مودی جی کے خلاف حقائق کا اظہار کرنے والی فلم دیکھنے کی جرأت کی تو پھر اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلرس وقتاً فوقتاً اس امر کی تصدیق کرتے رہتے ہیں۔ اب اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی کہ ہماری یونیورسٹی کے وائس چانسلر اکثریت کی آمرانہ روش، اس کی آمریت کے ترجمان بن گئے ہیں۔ ہم یہ بات یوں ہی نہیں کررہے ہیں بلکہ اس کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ ایک ایسا باوقار تعلیمی ادارہ ہے جو انگریز سامراج کی غلامی کا طوق پوری طرح اُتار پھینکنے کیلئے قائم کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد ظلم و جبر کے استبداد اور ناانصافی کے خلاف آواز اُٹھانا تھا لیکن افسوس صد افسوس کے آج اس تعلیمی ادارے میں جب حق و انصاف کی آوازیں اُٹھتی ہیں تو اسے دبایا جاتا ہے، باالفاظ دیگر کچلا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر گجرات فسادات میں مودی جی کے کردار کو بے نقاب کرنے والی بی بی سی کی دستاویزی فلم دیکھنے کی انصاف پسند طلبہ نے کوشش کی، جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر نے فوری پولیس کو طلب کرلیا۔ وائس چانسلر نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انٹرنیٹ بند کردیا گیا اور پولیس نے سارے جامعہ ملیہ اسلامیہ کو گھیرے میں لے کر خوف و دہشت کا ماحول پیدا کردیا یونیورسٹی کے تمام دروازے بند کردیئے۔ 10 طلباء کو گرفتار کرلیا گیا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر نے یہ کہتے ہوئے تمام حدود پار کردیں کہ یونیورسٹی میں ہر حال میں امن و امان برقرار رکھا جائے گا۔ چاہے اس کیلئے طلبہ کو زدوکوب کرنا پڑے یا انہیں گرفتار کرنا پڑے۔ وی سی کے مطابق یونیورسٹی میں مٹھی بھر طلباء ہیں جو امن و امان بگاڑنا چاہتے ہیں۔ ان کے سیاسی عزائم ہیں لیکن ہم یونیورسٹی میں ہنگامہ برپا کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جن طلبہ کو گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے دستور ہند کی تمہید میں بیان کردہ حق آزادی کے عزم پر عمل کرنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔اگر دیکھا جائے تو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ان طلبہ نے آئین یا دستور کے عزم کو پورا کرنے کی خاطر خود کو خطرہ میں ڈال دیا۔ ایسے طلبہ کو ہم اور سارا ملک سلام کرتا ہے۔ جہاں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر کا سوال ہے، وہ اچھی طرح جانتی ہیں کہ جامعہ میں امن نہیں ہے۔ سب سے پہلے انہیں جامعہ کے مطلب و معنی کیا ہیں، یہ جاننا ضروری ہے۔ جامعہ کا مطلب وہاں کے طلبہ و اساتدہ ہیں، ان کے دل بے چین و بے قرار ہیں۔ اگر وہ حق کیلئے سچائی اور انصاف کیلئے بی بی سی کی دستاویزی فلم دیکھنا چاہتے تھے تو اس میں قباحت کیا ہے؟ آخر وی سی جامعہ میں اس دستاویزی فلم دکھائے جانے کی مخالف کیوں ہیں؟ حالانکہ وہ فلم دو دہے قبل گجرات میں پیش آئے، ناقابل تصور و ناقابل یقین تشدد کی یاد دلاتی ہے۔ جامعہ کے طلبہ نے ڈسمبر اور جنوری کی سردیوں میں ان پر ہوئے پولیس تشدد کو فراموش نہیں کیا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر کو اس وقت اخلاقی بنیادوں پر مستعفی ہوجانا چاہئے تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ویسے بھی یہ توقع ہم ان شخصیتوں سے کرسکتے ہیں۔ جن میں غیرت ہو۔ اس غیرت کا ذرا سا احساس تین سال قبل ہوچکا تھا جب وی سی نے جامعہ میں طلبہ پر پولیس تشدد کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ وہ جامعہ کے عہد کے ساتھ ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ انہیں احساس ہوگیا ہے کہ اس طرح کی غیرت غیرضروری اور فضول ہے چنانچہ انہوں نے اسے (غیرت) کو کہیں گہرائی میں دفن کردیا ہے۔ دوسری طرف غیرت کو دفن کئے جانے کا معاملہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں پیش آیا۔ وہاں کے وی سی اکثریتی نظام کے تئیں خود کو دوسروں سے زیادہ وفادار ثابت کرنے کی خاطر بی بی سی کی ڈاکیومنٹری کی مخالفت میں ایک مضمون ہی لکھ دیا۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے کبھی ذکیہ جعفری اور بلقیس بانو کے حق میں مضمون نہیں لکھا۔ پولیس تشدد میں معذور ہوئے طلبہ کی تائید میں قلم اٹھانے کی جرأت نہیں کی۔ افسوس اس بات پر ہے کہ انہوں نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو ایک دہشت گاہ ، ایک خوف گاہ میں تبدیل کردیا۔ اگر کوئی استاد حکومت پر تنقید کرتا ہے تو اسے متنبہ کیا جاتا ہے۔ طلبہ کے ادبی فیسٹیول کو روکنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ ویسے بھی حیرانی کی کوئی بات نہیں، اس لئے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر بننے کے بعد وی سی نے آر ایس ایس کی اس ذیلی تنظیم کے سربراہ سے آشیرواد لیتے ہوئے اپنی تصاویر جاری کی تھیں جسے ایک خاص مقصد کے تحت خاص کام تفویض کیا گیا۔ اس شخص پر مسلمانوں کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کی سازش رچنے کا الزام ہے لیکن تحقیقاتی ایجنسیوں نے اسے بری کردیا۔ اس طرح جس طرح 2002ء کے گجرات فسادات میں اس وقت کے چیف منسٹر کو بری کیا تھا۔ بی بی سی کی دستاویزی فلم پر برہمی اس لئے ہے کہ اس میں پوچھا گیا کہ کیا گجرات فسادات کیلئے اس شخص کو بری الزمہ قرار دیا جاسکتا ہے؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب آپ سب جانتے ہیں۔