بی جے پی بمقابلہ اپوزیشن کوکاکولہ بمقابلہ پیپسی جیسا ہے

   

راما لکشمی
ہندوستان میں بی جے پی اور مابقی اپوزیشن جماعتوں کے درمیان جو جنگ جاری ہے وہ کوک بمقابلہ پیپسی جنگ کی طرح ہے اور یہ جنگ غلط وجوہات کی بناء پر لڑی جارہی ہے۔ ایودھیا میں وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے بھومی پوجن کئے جانے کے کچھ دن بعد جنتادل (یو) اور آر جے ڈی کے لیڈروں کا کہنا تھا کہ وہ بھی سیتامڑھی کو جانکی جنم بھومی کے طور پر فروغ دیئے جانے کے خواہاں ہیں۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ وہاں ایک سیتامندر تعمیر کی جائے اُسی طرح جس طرح بڑے پیمانے پر ایودھیا میں رام مندر تعمیر کی جارہی ہے۔ یہ باتیں اس وقت سے شروع ہوئیں جب 5 اگست کو تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے جئے شری رام کے نعرے لگائے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس معاملہ میں ملک کی بیشتر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوششیں کررہی ہیں۔

جہاں تک شمالی ہند کا سوال ہے اسے حقیقت میں سیاسی ماحولیاتی تقلید یا نقل کا مقام کہا جاسکتا ہے۔ وہاں سب سے پہلے ہندتوا کو تھام لو جیسے نظریہ کی نقل کی گئی، اگر دیکھا جائے تو شمالی ہند کے علاقہ کو کلاسک برانڈنگ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اب اسی علاقہ میں کوک بمقابلہ پیپسی برانڈ کی جنگ کی طرح بی جے پی اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان برانڈ کا کھیل شروع ہوا ہے۔ جہاں تک پیپسی اور کوکاکولہ مسابقت کا سوال ہے پیپسی خود کو کوکاکولہ کی طرح تصور کرتی ہے جبکہ کوکاکولہ مسلسل ’’حقیقی چیز‘‘ کے ٹیگ لائن کو چلا رہا ہے، اگرچہ ٹھنڈے گھونٹ کے اکثر آزمائشوں میں پیپسی کامیاب ہوتی رہی ہے اور اس کے ذائقہ کو بہتر قرار دیا گیا لیکن کوکاکولہ ہمیشہ سرفہرست برانڈ رہا جیسا کہ اب نریندر مودی ۔ امیت شاہ کی بی جے پی سرفہرست ہے۔ بی جے پی کا ہندتوا کوک ہے اور جو آج کا مارکٹ لیڈر برانڈ ہے۔ دوسری طرف پیپسی کی طرح کے برانڈس ہیں جنہیں ہم کانگریس، جانیودھاری، قسم، آپ کی ہنومان چالیسی چانٹنگ، شاہین باغ کو نظر انداز کرنے والی ایک قسم، آر جے ڈی ۔ جے ڈی یو کی سیتامڑھی مندر قسم اور ایس پی۔ بی ایس پی کی پرشورام قسم کہہ سکتیہیں۔ اس مسابقت میں گرما گرم مارکٹ پلیس جو ہندوستان کی جمہوریت کی طرح نہیں بلکہ صرف وہی کمپنیاں جو منفرد کام کرکے دکھاتی ہیں وہی اجارہ داری قائم کرسکتی ہیں اور برتری منواسکتی ہے اور اگر نہیں تو پھر آپ کو عصری نہیں سمجھا جاتا۔

’’کس نے تالے کھولے؟‘‘ یہ ایسا سوال تھا کانگریس کے کئی لیڈروں نے 5 اگست سے قبل کئے وہ دراصل 1985 کے دوران ایودھیا میں راجیو گاندھی کی جانب سے بابری مسجد کے دروازے کھولے جانے اور 1989 میں شیلا نیاس کی اجازت دیئے جانے کا حوالہ دے رہے تھے۔ ان کانگریسی قائدین کا مایوسانہ دعویٰ دراصل نرم ہندتوا کی برانڈنگ کرنا تھا۔ اگرچہ ان لوگوں نے اپنے برانڈ پوزیشن کو واضح نہیں کیا لیکن یہ بتانے کی کوشش کی کہ آج جس مندر کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے اس کا کریڈٹ راجیو گاندھی کو جاتا ہے۔ ویسے بھی کمپیوٹر کو ایجاد کرنا کافی نہیں جیسے کہ Sperry Rand

نے کیا۔ کوئی بھی کمپنی کو آج یاد نہیں کرتا۔ ایک تو برانڈ لیڈر وہ ہوتا ہے جو صارفین کے ذہنوں پر حکمرانی کرتا ہے جیسا کہ
IBM
نے کیا، یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ الرائس نے اپنی کتاب ’’دی بیٹل فار یوور مائینڈ‘‘ میں لکھا ہے اور اس میں جو کچھ لکھا ہے وہ اس کا بی جے پی اور ایودھیا پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔ جب آپ مارکٹ لیڈر ہیں تو پھر ہندتوا کا قزاق شدہ ورژن اپناتے ہو۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ آپ برگر کنگ کی بجائے برگر سنگھ کو اپنا رہے ہو۔ اس معاملہ میں ہم کانگریس کے اہم لیڈر اور سابق سفارتکار ششی تھرور کی مثال پیش کرسکتے ہیں۔ ششی تھرور نے تک 2017 میں انتباہ دیا تھا کہ کانگریس کو بی جے پی کی نقل نہیں کرنی چاہئے، ایسا کرنے سے ہم اور ہماری اہمیت صفر ہو جائے گی۔

اسرائیل میں پچھلے انتخابات کے دوران تمام سیاسی جماعتیں ایسا لگ رہا تھا کہ صحیح سمت کی جانب رواں دواں ہے لیکن بعد میں وہ حقیقت کہیں گم ہوگئی۔ چلئے اسرائیل تو دور ہے اپنے گھر کے قریب ہی پاکستان کو دیکھئے جہاں پی پی پی، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی ایک دوسرے سے زیادہ مختلف دکھائی نہیں دیتے اور یہ تینوں پارٹیاں فوج کی آؤ بھگت میں مصروف رہتی ہیں اور بنیاد پرستی کی تائید کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتی ہیں۔ پچھلے سال میں نے یہ استدلال پیش کیا تھا کہ دہلی کے چیف منسٹر اروند کجریوال ہندوستانی سیاست میں ایک نئی مرکزیت کی پیشکش کررہے ہیں جو ہندوازم، قوم پرستی، سماجی آزاد خیالی اور بہبود کا ایک مرکب ہے لیکن اروند کجریوال اس مرکز سے دور ہوگئے۔ ان کی نظریاتی جمناسٹکس ایک جوکھم سے بھری رسی پر ٹکی ہوئی ہے۔ جب تک خود احتسابی کا میکانزم نہیں ہوگا اور حقیقی متبادل کا فقدان پایا جائے گا وہ جمہوریت کے لئے ٹھیک نہیں رہے گا۔ کیاچ اپ پالیٹیکس کا کھیل کھیلنے کی بجائے ہندوستان کی اپوزیشن کو ایک اہم برانڈ کی حیثیت سے خود کو دوبارہ منوانا ہوگا۔ اس سلسلہ میں ہم تشہیری دنیا کی مثال پیش کرسکتے ہیں اور اس سلسلہ میں Avis بمقابلہ ہرٹز برانڈ کے رینٹل کار کے شعبہ میں ٹکراؤ کو دیکھتے ہیں۔ Avis نمبر دو کے مقام پر ہے اور ہرٹز کو مارکٹ لیڈر کہا جاتا ہے۔ برسوں Avis نے اپنے پیام میں خود کو ہرٹز کی طرح قرار دیا تھا لیکن جب اس نے کہا کہ ہمارا مقام دوسرا ہے، ہماری خدمات غیر معمولی ہیں، ہماری کاریں صاف ستھری اور بہترین حالت میں ہیں تب پہلی مرتبہ اس کمپنی نے اپنی آمدنی میں بے تحاشہ اضافہ درج کیا کیونکہ اس نے خود کو ہرٹز کے خلاف بتایا تھا ناکہ ہرٹس جیسا۔ ہر بزنس میں ترقی کے لئے آپ کو نئے صارفین یا موجودہ صارفین کی جانب سے مصنوعات کے زیادہ سے زیادہ استعمال کو یقینی بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک سیاسی جماعت کو بھی اپنے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کی ضرورت ہوتی ہے۔