بی جے پی حکومت خود اپنی مکاری کے جال میں پھنس گئی

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

گزشتہ ہفتہ ، میں نے اپنے مضمون میں بتایا تھا کہ بی جے پی اور ’انڈیا‘ ( اپوزیشن اتحاد ) کے درمیان انتخابی میدان جنگ تیار ہے ، میں نے اپنے مضمون میں این ڈی اے کا مخفف استعمال نہیں کیا کیونکہ موجودہ حالات میں کوئی بھی اہم سیاسی جماعت نے یہ اعلان نہیں کیا ہے کہ وہ حکمراں بی جے پی کی حلیف یا اس کی اتحادی ہے ۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ 2019 ء کے عام انتخابات میں این ڈی اے کی جو اہم ترین اتحادی جماعتیں تھیں ان جماعتوں نے بی جے پی سے اپنا ناطہ توڑ لیا ، اس سے دوری اختیار کی جس میں شیوسینا ، اکالی دل ، جنتادل (متحدہ ) شامل ہیں جبکہ حالیہ عرصہ کے دوران ٹاملناڈو کی اہم سیاسی جماعت AIADMK نے بی جے پی سے رشتہ منقطع کرلیا ہے ، اس سے دوری اختیار کرلی ہے ۔ دوسری طرف 2019 ء کی یو پی اے فی الوقت ایک بڑے اپوزیشن اتحاد I.N.D.I.A میں تبدیل ہوگیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کا یہ اتحاد بہت مضبوط ہے اور بی جے پی کو زبردست چیلنج دے سکتا ہے ۔ جیسا کہ میں نے توقع کی تھی بی جے پی نے اب اپنی تمام تر توجہہ ’’سناتن دھرم ، تبدیلی مذہب ،لو جہاد ، خواتین تحفظات بل ، پارلیمنٹ کی نئی عمارت اور G-20 سربراہ اجلاس ‘‘ کے نتائج پر مرکوز کی ہوئی ہے ۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ملک میں 2024 ء کے عام انتخابات کی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عزت مآب وزیراعظم نے صرف 6 دنوں میں چار ریاستوں کے 6 مقامات پر ریالیوں سے خطاب کیا ۔ غیر بی جے پی زیراقتدار ریاستوں میں اپوزیشن حکومتوں کو بدنام کرنے کی خاطر عجیب و غریب بیانات دیئے ہیں اور اپوزیشن زیراقتدار ریاستوں پر غیرمنصفانہ تنقید کی ہے خاص طورپر ان ریاستوں کے چیف منسٹروں کو تنقیدوں کا نشانہ بنایا ۔ وزیراعظم بڑھا چڑھاکر بولنے میں یقین رکھتے ہیں چنانچہ وہ اپنے خطاب میں بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ بات خوش آئند ہے کہ اپوزیشن اتحاد I.N.D.I.A نے بی جے پی اور اس کی زیرقیادت این ڈی اے حکومت کی ناکامیوں کو اُجاگر کرنے اور اسے عوام کے سامنے لانے کا طریقہ احتیار کیا ہے وہ کھول کھول وزیراعظم نریندر مودی کی ناکامیوں کو منظرعام پر لارہے ہیں خاص طورپر اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتوںنے بڑھتی مہنگائی اور بیروزگاری کے لئے مرکزی حکومت کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کیا اور پھر اپنے ہدف میں توسیع کرتے ہوئے نفرت انگیز و اشتعال انگیز تقاریر ( جیسا کہ پارلیمنٹ میں بی جے پی رکن مسٹر رمیش بدھوری نے بی ایس پی کے مسلم رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی کے خلاف اشتعال انگیز ریمارکس کئے باالفاظ دیگر ایوان میں اُنھیں گالیاں دیں ۔ مذہب کا نام لیکر اُن کی توہین کی ) کیلئے بھی بی جے پی اور مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا شروع کیا ۔ اسی طرح اپوزیشن اتحاد نے آزادی صحافت پر قدغن لگانے سے متعلق مرکزی حکومت کے اقدام ( نیوز کلک اور اس کے ایڈیٹر کیخلاف کارروائی ) ، ریاستوں کو واجب الادا رقومات کی عدم ادائیگی ( مثال کے طورپر مرکزی حکومت نے مغربی بنگال کو MGNREGA فنڈس دینے سے انکار کیا ہے ) ریاستوں کے حقوق پر حملوں ( مثال کے طورپر ریاست ٹاملناڈو کو میڈیکل کالجس منظور نہ کرنا یا وہاں کئی میڈیکل نشستوں میں اضافہ سے گریز ) انصاف کی عدالتوں کو کمزور کرنا ( کالجیم کی 70 سفارشات کو التواء میں رکھا جانا ) ، چینی دراندازی ( اس پر حکومت کی مسلسل خاموشی ) ، دہشت گردانہ حملوں ( کشمیر میں دہشت گردانہ حملوں کے واقعات میں اضافہ ) ، معاشی نمو کی سست روی ( 2022-23 ء میں 7.2 فیصد جی ڈی پی نمو کے بعد 2023-24 ء میں جی ڈی پی نمو کا تخمینہ 6.3 فیصد لگایا گیا ہے ) خفیہ اور تحقیقاتی ایجنسیوں کے غیرمجاز استعمال ( صرف اپوزیشن قائدین کے خلاف مقدمات ) اور صرف ایک شخص (مودی ) کے اطراف ساری بی جے پی کا گھومنا ، پانچ ریاستوں کے مجوزہ انتخابات میں یہ کہنا کہ مودی کے چہرہ کو پیش کیا جائے گا) وغیرہ وغیرہ کو لیکر INDIA بی جے پی پر تابڑ توڑ حملے کرنے لگا ہے ۔
اپوزیشن قائدین انتقامی کارروائیوں کی پرواہ کئے بناء مودی حکومت کی ناکامیوں اور عوام دشمن پالیسیوں کو منظرعام پر لانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہے ہیں ۔ کسی کو بھی اس بات کی توقع نہیں تھی خود شائد بی جے پی اور مودی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ جس اپوزیشن کو وہ کمزور سمجھ رہے تھے وہ اتنی طاقتور بے خوف اور نڈر ہوجائے گی کہ ببانگ دہل بی جے پی حکومت کی غلط کاریوں ، بدعنوانیوں اور عوام دشمن پالیسیوں کو بے نقاب کرکے رکھ دے گی ۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ اُترپردیش میں بی جے پی کی حلیف جماعتوں نے ذات پر مبنی مردم شماری کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ جہاں تک اُترپردیش کا سوال ہے اس ریاست میں ذات پات کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور وہاں بے شمار ذاتوں سے تعلق رکھنے والی آبادی پائی جاتی ہے ۔ مرکزی حکومت کیلئے ایک اور پریشانی یہ ہے کہ I.N.D.I.A نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں منظور کروائے گئے خواتین تحفظات بل کو او بی سی دشمن قرار دیا اور وعدہ کیا کہ اقتدار میں آتے ہی پہلی فرصت میں وہ اس بل میں ترمیم کرے گی ۔ راہول گاندھی نے I.N.D.I.A اتحاد ی حکومت میں ذات پر مبنی مردم شماری کو ایجنڈہ کی اولین ترجیحات میں شامل رکھا ہے ۔ ایک طرح سے مودی حکومت نے خواتین تحفظات بل میں او بی سی خواتین کے لئے گنجائش فراہم نہ کرتے ہوئے بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے ۔
بی جے پی اس کی غلطیوں و ناکامیوں کو اُجاگر کرنے میں اپوزیشن کے بیانات اور مہمات کو لیکر کافی پریشان ہوگئی ہے ۔ وہ سوچ رہی ہے کہ اپوزیشن کے حملوں کا جواب دیا جائے تو کیسے دیا جائے ۔ اگر دیکھا جائے تو بی جے پی اور اس کی حکومت جس طرح نوٹ بندی کا اعلان کرکے پریشان ہوگئی تھی اسی طرح اب کی بار خواتین تحفظات بل منظور کرواکر پریشان ہوگئی ہے۔ اپوزیشن کے حملوں نے اسے پریشان کر رکھا ہے ۔ اس کے خیموں میں ہلچل مچ گئی ہے خاص طورپر وہ بی جے پی لیڈر (جنھیں سونچنے ، کچھ بولنے کی اجازت نہیں ) اس سلسلہ میں مسٹر مودی کے اشارہ کا انتظار کررہے ہیں ۔
مودی جی کو اس حقیقت کا پتہ چل چکا ہے کہ مسلمانوں ، عیسائیوں اور دوسری اقلیتوں کے خلاف متحدہ ہندو ووٹ بنک سے متعلق ان کا پراجکٹ خطرہ میں آگیا ہے اور وہ او بی سی حقوق کے چمپیئن اور ہیرو ہونے کا جو دعویٰ کرتے ہیں اسے بھی چیلنج کیا جانے لگا ہے ۔ اس دعوے پر بھی سوالات اُٹھائے جانے لگے ہیں ۔ مودی نے غریب آبادی کو متاثر کرنے کیلئے بطور چال ہمیشہ یہی کہا ہے کہ قومی وسائل پر سب سے پہلا حق غریبوں کا ہے اب ان کی یہ چال بھی ناکام ہوگئی ہے کیونکہ ان کی حکومت نے اگر سب سے زیادہ کسی کو نظرانداز کیا تو وہ غریب ہیں اور قومی وسائل پر مودی کے دولت مند دوستوں کا قبضہ ہے ۔ ایسے میں مودی کا یہ دعویٰ زمین چاٹ رہاہے ۔
راہول گاندھی اور ملک ارجن کھرگے نے ذات پر مبنی مردم شماری کی تائید و حمایت کی ہے ۔ یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ او بی سی ایک متحدہ بلاک نہیں ہے ۔ بعض ریاستوں نے پہلے ہی سے OBC کو او بی سی اور ایم بی سی ( موسٹ بیارک ورڈ کلاس ) میں تقسیم کردیا ہے ۔ جہاں تک او بی سیز کا سوال ہے آمدنی ، سرمایہ ، قرضہ جات ، کنٹراکٹس ، لائیسنسوں ، ملازمتوں اور معاشی مواقعوں سے متعلق جائز حقوق اُنھیں ملنے چاہئے ۔ جتنا ممکن ہوسکے اُنھیں متحدہ رہنا ہوگا ہاں او بی سیز میں بھی ایک ذیلی تحفظات معاشی طورپر کمزور طبقات کو دیئے جانے چاہئے ۔ بہرحال فی الوقت ملک میں بی جے پی کی نسبت کے I.N.D.I.A کا موقف بہتر نظر آتا ہے ۔