دینی مدارس کو مین اسٹریم ایجوکیشن سے جوڑنے کے بیان پر مختلف گوشوں میں بحث، مودی حکومت مدرسوں کے معیار کو بڑھانے کوشاں
نئی دہلی۔14 جون (سیاست ڈاٹ کام)نریندر مودی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کی دوسری میعاد کے دوران مسلم طلبہ کو دی جانے والی اسکالرشپ کے تعلق سے حقائق ہنوز غیر واضح ہیں۔ مرکزی وزیر اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے حال ہی میں کہا تھا کہ مسلم طلبہ کو اسکالرشپ جاری کی گئی ہیں۔ مودی حکومت نے اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیے پانچ سال کے دوران 5 کروڑ اسکالرشپ دینے کا اعلان کیا ہے۔ بعض گوشوں نے کہا کہ مرکزی وزیر مختار عباس نقوی کا بیان غیر واضح ہے۔ انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ مرکز کی یہ اسکالرشپ آیا پانچ کروڑ مسلم طلبہ کے لیے ہے یا پھر پانچ کروڑ روپئے کی مالیت کا پیکیج تمام مسلمانوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ مودی حکومت کے دوسری میعاد کے آغاز کے ساتھ ہی قومی اور ریاستی سطح پر مسلمان اور دینی مدارس ایک بار پھر گرما گرم بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ بی جے پی حکومت نے جب سے مدرسوں کو عصری تقاضوں سے آراستہ کرنے اور طلبہ کو اسکالرشپ فراہم کرنے کی بات کی ہے، اسی دن سے ملک کے موافق مودی حکومت کے اداروں اور ٹی وی چینلوں پر بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا مودی حکومت بھی مسلمانوں کی دلجوئی کررہی ہے۔ مختار عباس نقوی نے کہا تھا کہ دینی مدارس کے طلبہ بھی رسمی اور اصل دھارے کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے معاشرے کی ترقی میں اہم رول ادا کریں۔ مختار عباس نقوی کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی کے منصوبے سب کا ساتھ سب کا وکاس کے حصہ کے طور پر ہی مسلم طلبہ میں اسکالرشپ کی تقسیم اور دینی مدارس کو عصری بنانے شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کی پالیسی کے تحت مدرسوں کے اساتذہ کو ملک گیر سطح پر ہندی، ریاضی، سائنس، انگلش اور کمپیوٹر وغیرہ میں ٹریننگ دی جائے گی
تاکہ وہ دینی مدارس کے طلبہ کو بھی اصل دھارے کی تعلیم دے سکیں۔ اترپردیش میں سماج وادی پارٹی کے لیڈر اور رکن پارلیمنٹ اعظم خان نے حکومت کے اس منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت واقعی مدرسوں کی بھلائی چاہتی ہے تو وہ ان کے معیار اور انفراسٹرکچر میں بہتری لائے۔ اعظم خان کا کہنا ہے کہ دینی مدارس میں پہلے ہی سے مذہبی تعلیم کے ساتھ ہندی، انگلش اور ریاضی کی تعلیم دی جاتی ہے البتہ دینی مدارس میں نتھورام گوڑسے اور سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر جیسے افراد تیار نہیں کیے جاتے۔ ان کے اس بیان نے تنازعہ پیدا کردیا ہے اور الیکٹرانک میڈیا میں اس بیان پر بحث چھڑچکی ہے۔ بعض گوشوں کا کہنا ہے کہ مدرسوں کو عصری بنانے کے لیے حکومت کی جانب سے اقدامات کرنا نئی بات نہیں ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملک کے ہر مذہب اور ہر طبقے کا احترام کرے۔ بی جے پی حکمرانی والی ریاست اترپردیش میں ہی مدارس کے رجسٹریشن کو لازمی قراردیا گیا تھا جس پر شدید اعتراضات اور مخالفت کی گئی تھی۔ مودی حکومت کے منصوبے کی بعض مسلم حلقوں نے خیرمقدم کیا ہے۔ خاص کر جمعیۃ العلمائے ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے کہا کہ معاشرے کی بہتری کے لیے تمام طبقات کو یکساں مواقع ملنے چاہئے۔