بی جے پی ذات پات کے استحصال سے ہو رہی ہے کامیاب

   

رام پنیانی
بھارت جوڑو یاترا نے یقینا راہول گاندھی کی مقبولیت میں بے تحاشہ اضافہ کیا ہے۔ بھارت جوڑو یاترا کے بارے میں یہی کہا جارہا ہے کہ اس یاترا نے راہول گاندھی کو ایک نیا عزم و حوصلہ عطا کیا ہے اور انہیں اب ایک بڑے اپوزیشن لیڈر میں تبدیل کردیا۔ حالیہ عرصہ کے دوران ہمارے ملک میں جو کچھ تبدیلیاں رونما ہوئیں ان سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ یاترا سے پہلے اور یاترا کے بعد کے راہول گاندھی میں زمین آسمان کا فرق آیا ہے اور اب حال یہ ہیکہ راہول گاندھی کو حکمراں جماعت بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی کے لئے سب سے بڑا چیلنج تصور کیا جارہا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ حالیہ عرصہ کے دوران راہول گاندھی نے برطانیہ کا دورہ کیا اور وہاں کیمرج کے بشمول کئی اہم تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ دانشوروں و مفکرین کے اداروں میں خطاب کیا اور ان میں جو کچھ مسائل اٹھائے دراصل وہی مسائل راہول نے بھارت جوڑو یاترا میں اٹھائے تھے، لیکن حکمراں جماعت کے قائدین نے برطانیہ میں راہول گاندھی کی تقریر کو توڑ مروڑ کر پیش کیا، یہاں تک کہ ان لوگوں نے راہول گاندھی کو قوم دشمن کا نام دیا۔ اس معاملہ میں دائیں بازو کے سیاسی جماعتوں اور گروپوں میں ایسا لگ رہا ہیکہ سبقت کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ دائیں بازو کے عناصر نے راہول گاندھی کے بارے میں یہی کہا کہ انہوں نے بیرون ملک ہندوستان کی توہین کی حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا، بلکہ راہول گاندھی، مودی اور ان کی حکومت اور عوام کو درپیش مسائل کے بارے میں سوالات اٹھائے تھے۔ انہوں نے یہ سوال کیا تھا کہ آخر مودی حکومت عوام دشمن اقدامات کیوں کررہی ہے؟ اپنے دوستوں کا ساتھ کیوں دے رہی ہے جس کے نتیجہ میں ملک کی معیشت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ بہرحال زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے بی جے پی کے ایک لیڈر نے نیرو مودی، للت مودی اور مپیول چوکسی سے متعلق ان (راہول) کے بیان کو مسئلہ بنا دیا۔ دارصل راہول گاندھی نے یہ کہا تھا کہ ہر چور کی کنیت مودی کیوں ہوتی ہے۔ راہول نے کرناٹک میں انتخابی مہم کے دوران یہ بات کہی تھی۔ جسے مسئلہ بناکر گجرات کے رہنے والے بی جے پی لیڈر پرنیش مودی نے ہتک عزت کا مقدمہ دائر کردیا جس میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ راہول نے مودی سماج کی توہین کی ہے انہیں بدنام کیا۔ راہول گاندھی کے بیان کا جائزہ لینے پر اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ چور مودی ہیں لیکن تمام مودی چور نہیں ہیں۔ بہرحال جو کچھ بھی ہو تحت کی عدالت نے اس مقدمہ کی سماعت کی۔ اسے برقرار رکھا اور راہول گاندھی کو ہتک عزت کا مرتکب پاتے ہوئے دو سال قید کی سزا سنائی جبکہ اعلیٰ عدالتوں سے رجوع ہونے کے لئے ایک ماہ کی مہلت بھی دی۔ اس دوران ان کی پارلیمنٹ کی رکنیت ختم کردی گئی۔ اب انہیں مذکورہ مقدمہ میں ضمانت بھی حاصل ہوگئی ہے۔ اس کیس میں ایک چیز جو بہت زیادہ حیرت انگیز بلکہ عجیب و غریب رہی وہ یہ ہیکہ اس مقدمہ میں مزید کہاں تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ اس کا انتظار کئے بنا بڑی عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوک سبھا سکریٹریٹ نے راہول کی رکنیت ختم کردی۔ یعنی انہیں لوک سبھا کے لئے نااہل قرار دیا گیا۔ ایک طرف راہول گاندھی کو پارلیمنٹ کے لئے نااہل قرار دیا گیا دوسری طرف بی جے پی نے یہ چیخ و پکار شروع کردی کہ راہول گاندھی نے اوبی سیز کی توہین کی ہے اور ملک گیر سطح پر احتجاج کا اعلان بھی کیا۔ اس دوران کانگریس کہاں خاموش رہنے والی۔ اس نے ملک کے مختلف مقامات پر راہول گاندھی کی تائید و حمایت میں احتجاجی مظاہرے منظم کئے اور کانگریس لیڈر کی لوک سبھا رکنیت ختم کئے جانے کی شدت سے مخالفت کی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2014 کے عام انتخابات سے قبل منی شنکر ایئر نے جو اس وقت کانگریس پارٹی میں تھے۔ مودی کی سیاست کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے نیچ (نچلی سطح) کا لفظ استعمال کیا تھا اور بی جے پی نے اس کا بھرپور بلکہ ناجائز فائدہ اٹھاکر لفظ نیچ کو ادنی ذات میں تبدیل کردیا اور پھر اس کے سیاسی فوائد بھی حاصل کئے حالانکہ منی شنکر ایر نے یہ کہا تھا کہ مودی نچلی سطح کی سیاست کرتے ہیں تاکہ سیاسی فائدے حاصل کئے جاسکیں۔ چنانچہ بی جے پی نے یہ چیخ و پکار شروع کردی کہ کانگریس نے ادنی ذاتوں کی توہین کی ہے۔ اس مرتبہ بھی بی جے پی اور اس کے قائدین ایسا لگتا ہے کہ اسی طرح کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں تاکہ او بی سیز کی ہمدردیاں حاصل کی جاسکیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کو ہزاروں کروڑ روپیوں کا چونا لگاکر بیرون ملک فرار ہونے والے بھگوڑوں میں سے کوئی بھی او بی سیز سے تعلق نہیں رکھتا۔ اس سلسلہ میں آپ کو بتادیں کہ حکومت ہند نے اینٹی گوا کی شہریت حاصل کرنے کے لئے میہول چوکسی کو ’’نو آبجکشن‘‘ سرٹیفکیٹ بھی دے دیا جس سے اندازہ ہوتا ہیکہ حکومت ملک کے ہزاروں کروڑہا روپے لوٹ کر فرار ہونے والوں کے خلاف کارروائی میں کتنی سنجیدہ ہے۔ بی جے پی نے او بی سی اور دلتوں سے متعلق جو چالیں چلی ہیں وہ دو مخالف سمتوں اور ضمنی پٹریوں پر گئی ہیں۔ ایک طرف وہ سماج کے ان طبقات کے حق میں کئے جانے والے اثباتی اقدامات کی مخالفت کرتی ہے اور دوسری طرف ہزاروں تنظیموں کی جانب سے کی جانے والی سیوا (خدمات) کے ذریعہ ان کے دل جیتنے کی خواہاں ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ دلتوں اور او بی سیز کا نظریاتی و جذباتی استحصال بلکہ مذہبی استحصال کیا جاتا ہے۔ اگر ہم ماضی میں واپس جائیں تو گجرات کے مخالف دلت فسادات ذہنوں میں عود کراتے ہیں، یہ فسادات 1980 میں صرف اس لئے ہوئے تھے کہ درج فہرست طبقات و قبائل کو تحفظات نہ دیئے جائیں اور 1985 میں بھی اوبی سیز کے حق میں اثباتی اقدامات کے خلاف تشدد پھوٹ پڑا جو مسلم مخالف تشدد میں تبدیل کردیا گیا۔ اگر آپ شمالی ہند کا جائزہ لیں گے جہاں دلتوں اور او بی سیز کے حق میں مثبت اقدامات کے خاف اعلیٰ ذات والوں کے درمیان اتحاد مستحکم ہوا اور پھر ساری دنیا نے ان علاقوں میں یاتراؤں اور مندر تحریک کا خاص طور پر مشاہدہ کیا۔ اسی طرح منڈل کمیشن پر عمل آوری کے پیچھے بھی کئی عوامل کار فرما رہے جن میں وی پی سنگھ اور دیوی لال کے درمیان اقتدار کی جنگ اور اعلیٰ ذات والوں کے دعوے شامل ہیں جس کے نتیجہ میں ایک طرف او بی سیز ہندوستانی سیاست میں اپنے حصہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے خاص طور پر ان لوگوں نے ملازمتوں میں اپنے لئے حصہ کا مطالبہ کیا اور دوسری طرف بی جے پی نے رتھ یاترا کے ذریعہ اعلیٰ ذات اور ہندوؤں کے بااثر ذاتوں کے ساتھ کھڑے رہنے کا بڑا موقع پایا۔ منڈل کمیشن پر عمل آوری کے بعد رتھ یاترا نے بی جے پی کو زبردست فائدہ پہنچایا اور اسی رتھ یاترا کے نتیجہ میں جہاں بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ کی تعداد میں اضافہ ہوا وہیں شہادت بابری مسجد اور ہولناک فرقہ وارانہ فسادات کے واقعات پیش آئے۔ مندر مسئلہ اور منڈل سفارشات کو غلط ملط کرنے سے متعلق بی جے پی کی چال کامیاب رہی اور 1984 میں بی جے پی کا جو ووٹ شیر 7.5 فیصد تھا 1991 میں 21 فیصد ہوگیا اور اس کے بعد 1996 میں بی جے پی 161 پارلیمانی حلقوں پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے واجپائی کی قیادت میں مخلوط حکومت بنانے کے قابل ہوئی۔ بی جے پی ۔ آر ایس ایس کے مقاصد بالکل واضح ہیں۔
ذات پات کے نظام کو برقرار رکھتے ہوئے ہندو اتحاد کو مستحکم کرنا
اگر دیکھا جائے تو آر ایس ایس کا قیام ہی ناگپور ودربھا علاقہ میں غیر برہمنی تحریک کے ذریعہ دلتوں کے پڑھتے دعوے کے جواب میں عمل میں آیا۔ اس تحریک کے نتیجہ میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ملک کے سماجی ڈھانچہ اور اقتدار پر اس کی گرفت کمزور ہو جائے گی اور اسی لئے ہندو راشٹرا کے ایجنڈہ کو لے کر آر ایس ایس کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے لئے خارجی دشمنوں کا خوف دلاکر ہندوؤں کو متحد کرنے کی کوشش کی گئی اور ایسے ظاہر کیا گیا جیسے آر ایس ایس ذات پات میں یقین نہیں رکھتی بلکہ بلا لحاظ ذات پات وہ ہندو راشٹر کے لئے تمام ہندوؤں کومتحد کررہی ہے جبکہ گولوالکر سے لے کر دین دیال اپادھیائے تک اس کے نظریہ سازوں نے ورنا جاتی کو ہندو سماج کی بنیاد کے طور پر برقرار رکھا۔ موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی کتاب ’’کرم یوگی‘‘ میں مختلف ذاتوں کے درجات اور تقدس کو بیان کیا ہے (جو شاید ایک چالبازی کے تحت پیش کی گئی ہے) مودی نے اپنی کتاب میں لکھا ہیکہ صفائی کا کام والمیکی ذات کے لئے روحانی تجربہ کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ لوگ (والمیکی) دوسروں یعنی سارے معاشرہ اور بھگوانوں کی خوشنودی اور ان کی خوشی کے لئے کام کرتے ہیں اور یہ والمکیوں کا فرض ہے اور وہ لوگ صفائی کا کام صدیوں سے باطنی و روحانی سرگرمی کے طور پر کررہے ہیں اور اس کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ اس چالبازی یا مکاری کی تازہ ترین مثال ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کی بی جے پی کی جانب سے ہو رہی مخالفت ہے۔ مرکزی حکومت نے معاشی طور پر کمزور طبقات کے لئے 10 فیصد تحفظات کے کوٹہ کو منصفانہ قرار دیا ہے اور اسے حکومت کی آئینی ذمہ داری قرار دیا ہے۔ ناقدین کے مطابق EWS کوٹہ بھی امتیاز پر مبنی ہے اور حکومت نے بہت سوچ سمجھ کر اعلیٰ ذات والوں کے لئے 10 فیصد تحفظات کا کوٹہ مقرر کیا جس کے تحت سالانہ 8 لاکھ روپے سے کم آمدنی والے غیر ایس سی۔ ایس ٹی۔ او بی سی خاندانوں کو اس سے استفادہ کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ کانگریس قائدین صاف طور پر کہنے لگے ہیں کہ وہ کانگریس ہی ہے جس نے ایس سی ایس ٹی بی سی اور او بی سیز کو اوپر اٹھایا تحفظات دیئے ہیں جبکہ بی جے پی صرف اعلیٰ ذات کے مفادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے غیر برہمنوں کے مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہے۔