بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں تبدیلی مذہب کے خلاف سخت قانون سازی

   

دستور کو پامال کیا جارہا ہے ، صدر کل ہند مجلس تعمیر ملت جناب سید جلیل احمد ایڈوکیٹ کا اظہار تشویش
حیدرآباد :۔ ملک میں بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں اچانک اور بیک وقت لو جہاد کے خلاف قانون سازی کے نام پر ملک کے دستور میں دی گئی مذہبی آزادی اور قوانین کو پامال کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف ایک ایسی زہریلی اور مسموم فضا تیار کی جارہی ہے ۔ جس کے انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوں گے اور مسلم امت کو اس قسم کی قانون سازی کے بعد پیدا ہونے والے حالات سے نمٹنے کے لیے ذہن ، قانونی سماجی اور معاشی طور پر تیار رہنا ہوگا ۔ ان خیالات کا اظہار صدر کل ہند مجلس تعمیر ملت جناب سید جلیل احمد ایڈوکیٹ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صرف چند دن کے عرصہ میں تین ریاستوں مدھیہ پردیش ، ہریانہ اور اترپردیش سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ وہاں کی حکومتیں لوجہاد کے نام پر تبدیلی مذہب کے خلاف سخت قوانین بنا رہی ہیں ، جس کے تحت تبدیلی مذہب کے واقعات پر پانچ سال تک کی سزائے قید ہوسکتی ہے اور یہ جرم نہ صرف قابل دست اندازی پولیس ہوگا بلکہ ناقابل ضمانت بھی ہوگا ۔ جناب سید جلیل احمد نے کہا کہ آج جمعہ کے دن اترپردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے ایک سخت قانون بنانے کا اعلان کیا ہے اور اس ریاست کے محکمہ داخلہ نے اس قانون کا مسودہ محکمہ قانون کو روانہ کردیا ہے ۔ اس ہفتہ کے اوائل میں مدھیہ پردیش اور ہریانہ کی حکومتوں نے لو جہاد کے خلاف سخت قانون بنانے کا اعلان کیا تھا اور گزشتہ سال ہماچل پردیش کی اسمبلی نے تبدیلی مذہب کے خلاف سخت قانون منظور کیا ہے ۔ جب کہ کرناٹک کی حکومت نے بھی تبدیلی مذہب کے خلاف سخت قانون سازی کا ارادہ ظاہر کیا ہے ۔ جناب جلیل احمد نے کہا کہ بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے ملک میں مسلمانوں کے خلاف حلقہ تنگ کیا جارہا ہے ۔ بابری مسجد کی شہادت کے مقدمہ ، بابری مسجد کی اراضی کے حق ملکیت کے فیصلہ کے علاوہ دفعہ 370 اور دفعہ 35A کی برخاستگی ، تین طلاق کے تعلق سے قانون سازی کے ذریعہ مسلمانوں کو کمزور کرنے اور ان کی آواز کو کچلنے کے اقدامات کرلیے گئے ہیں ۔ دہلی میں ہوئے حالیہ فسادات میں جہاں ایک طرف مسلمانوں کا ہی نقصان ہوا ہے وہیں ان کو ہی ملزم و مجرم قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف مقدمات دائر کئے گئے ہیں دوسری طرف مرممہ قانون شہریت کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں کو اشتہاری مجرم قرار دیا گیا ہے ، ہجومی تشدد کے واقعات کے ذریعہ مسلمانوں کو پست ہمت کیا جارہا ہے ۔ یہ تمام واقعات کس بات کا اشارہ دیتے ہیں ۔ پہلے فسادات کے ذریعہ مسلمانوں کو جانی و مالی نقصان پہنچایا جاتا تھا اور اب قانون و اقتدار کا سہارا لے کر ان کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوششیں ہورہی ہیں ۔ ایسے حالات میں اب اس بات کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو مضبوط قانونی امداد فراہم کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جائے ، لیکن یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ مسلمان ان اہم رجحانات کو مسلسل نظر انداز کرتے ہوئے آپسی اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں جو دشمنی کی حد تک بڑھتے جارہے ہیں اور اس سے مسلم دشمن طاقتوں کو تقویت مل رہی ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان قوم کے وسیع تر مفادات کے لیے اختلافات کو کم سے کم کرتے ہوئے متحد ہوجائیں ۔۔