راج دیپ سردیسائی
مہاراشٹرا میں تجسس بھرا الیکشن ہورہا ہے جس میں کئی باتیں پہلی بار پیش آرہی ہیں یا آئیں گی۔ 49 سالہ برہمن متوطن ناگپور معلوم ہوتا ہے کہ مراٹھا غلبہ والے نظام حکومت میں دوسری پانچ سالہ میعاد کیلئے دوبارہ منتخب ہونے والا ہے۔ ٹھاکرے فیملی کا 29 سالہ ممبر حقیقی معنی میں الیکشن لڑرہا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے مراٹھا سرزمین کے اصل سپوتوں اور علاقائی طاقت شیوسینا (ایس ایس) کو اپنے دیرینہ اتحاد میں ثانوی مقام پر ڈھکیل دیا ہے۔ ڈھلتی عمر کے حامل شرد پوار جو تقریباً 50 سال مہاراشٹرا کے طویل قامت لیڈر رہے، اپنی فیملی اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کو یک جٹ برقرار رکھنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ اور کانگریس جو کبھی مہاراشٹرا کی ممتاز سیاسی پارٹی ہوا کرتی تھی، اب اپنی مطابقت کی جنگ لڑرہی ہے۔
درحقیقت، اگر کوئی ریاست ہے جو شاید کانگریس کے زوال اور بی جے پی کے عروج کی بہترین مثال پیش کرے، تو وہ مہاراشٹرا ہے۔ آخر یہی تو ریاست ہے جہاں مشترکہ کانگریس۔ این سی پی ووٹ تناسب کبھی 30% سے نیچے نہیں گیا۔ یہ اترپردیش نہیں ہے، جہاں کانگریس واحد ہندسہ والی پارٹی ہے، نہ ایسی ریاست جس نے سماجوادی پارٹی۔ بہوجن سماج پارٹی طرز کا سیاسی انقلاب دیکھا ہے۔ یہ ایسی ریاست ہے جہاں غیرکانگریس اپوزیشن نے کبھی اپنے بل پر اکثریت نہیں جیتی۔ 1995ء میں بی جے پی۔ سینا کو آزاد لیجسلیٹرز اور باغیوں کی تائید کے ساتھ اقتدار حاصل ہوا، اور 2014ء میں دونوں پارٹیوں نے نتائج کے بعد یکجا ہوکر اتحادی حکومت تشکیل دی۔ مہاراشٹرا آخری کانگریس قلعہ ہے جسے مکمل طور پر ٹوٹ جانے کا خطرہ ہے۔
پہلا جھٹکہ تب لگا جب ہندوتوا اتحاد نے دہا 1990ء کے اوائل میں خاص طور پر اربن مہاراشٹرا میں مذہبی خطوط پر تقسیم کی سیاست کا جواز پیدا کیا۔ دوسری دراڑ داخلی گوشے سے رونما ہوئی جب 1999ء میں پوار کانگریس سے دوسری مرتبہ علحدہ ہوگئے، اور بالخصوص مغربی مہاراشٹرا سے تعلق رکھنے والے متعدد نوجوان کانگریسی قائدین کو اپنے ساتھ لے گئے۔ تیسرا نقصان اُس وقت ہوا جب غیرمراٹھا او بی سی گروپوں کے سماجی گوشے کو ریاست کے زیادہ پسماندہ خطوں جیسے ودربھ اور مراٹھواڑہ میں بی جے پی اور شیوسینا کی صفوں میں نمائندگی مل گئی۔ چوتھا جھٹکہ بڑھتی دلت دعوے داری سے لگا، خاص طور پر باشعور دلت نوجوانوں میں ایسا رجحان پیدا ہوا کہ روایتی اعلیٰ طبقہ کی تابعداری مزید نہیں کریں گے۔ آخری کیل 2019ء میں ٹھونکی جارہی ہے جبکہ مراٹھا قیادت کانگریس کو چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہورہی ہے۔ مرہٹے، اقتدارکی اونچی منزل پر رہے ہیں، جو غالب کاشتکاری طبقہ ہے جس نے اپنی عددی اکثریت کو بروئے کار لاتے ہوئے کئی دہوں تک اقتدار اور وسائل پر تسلط قائم رکھا۔ برتری کیلئے تمام تر رسہ کشی کانگریس کے مراٹھا گروہوں کے اندرون ہوتی رہی جس میں بیرونی مداخلت بہت کم ہوئی۔
حتیٰ کہ طاقتور اندرا گاندھی متحارب مراٹھا گروپوں کو قابو میں رکھنے سے قاصر رہیں: اے آر انتولے جیسے چیف منسٹرس کو مسلط کرنے ان کی کوششیں کبھی پوری طرح کامیاب نہیں ہوئیں۔ اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نریندر مودی۔ امیت شاہ۔ دیویندر فڈنویس کی تگڑی اس معاملے میں کامیاب ہوسکتی ہے جہاں اندرا زیرقیادت کانگریس کو مرہٹوں پر حکمرانی میں ناکامی ہوئی۔ چالاک فڈنویس نے بڑے مراٹھا علاقائی لیڈروں سے نمٹنے میں لالچ دے کر پھانسنے کی پالیسی اپنائی۔ مراٹھا ریزرویشن کیلئے پُرشور مطالبے کو قبول کرلینا مرہٹوں کی نوجوان نسل کو راغب کرنے میں کلیدی اقدام ہے، جنھیں اندیشہ ہورہا تھا کہ انھیں مسابقتی جاب مارکیٹ میں نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ریزرویشن کا لالچ دینے کے بعد منظم انداز میں سخت موقف اختیار کرتے ہوئے ایسے مقامی مراٹھا قائدین کے اقتصادی غلبہ کو نشانہ بنایا گیا جن کی طرف سے سیاسی مخالفت کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔ مراٹھا اقتصادی طاقت کا محور کوآپریٹیوز کا وسیع نٹ ورک ہے جو پیٹرن۔ کلائنٹ رابطے کے جال کے ذریعے سختی سے قابو میں رکھے گئے ہیں۔ کوآپریٹیو سیکٹر کے ’’کیاش اینڈ کیاری‘‘ بزنس ماڈل کے نتیجے میں کئی شوگر کوآپریٹیوز دہانے تک پہنچ گئے اور حتیٰ کہ قانون کی خلاف ورزی ہوئی۔ اسٹیٹ پروٹکشن جو کانگریس حکمرانی میں دستیاب رہا، اس سے دستبرداری کے ساتھ فڈنویس حکومت شکر کے بڑے تاجرین اور اُن کے ساتھیوں کو ٹھوس پیام دینے میں کامیاب ہوئی: سب کے ساتھ مل جائیں یا پھر۔ اس میں کوئی تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ کئی مراٹھا قائدین جو وفاداری بدلتے ہوئے بی جے پی میں آگئے ہیں، ایسے ہیں جن کے کارخانوں وغیرہ کے خلاف متعدد زیرتصفیہ مقدمات ہیں۔
ایک طرح سے دیکھیں تو مہاراشٹرا کی فڈنویس زیرقیادت حکومت نے بڑی حد تک دہلی کے مودی اقتدار کی مانند خود کو ’’نئی‘‘ کانگریس ظاہر کیا ہے، جو اقتدار کے بیرموں کو ہوشیاری اور کچھ سنگدلی کے ساتھ بروئے کار لانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ لیکن جہاں کانگریس نے اپنے سیاسی سرمایہ کا بہت زیادہ حصہ داخلی خلفشار میں کھپا ڈالا، وہیں فڈنویس حکومت نے اپنی میعاد کو یکسو ذہن کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن کو ہنرمند سیاسی چالوں کے ذریعے تہس نہس کیا ہے: سینا کو قابو میں کرلیا گیا اور کانگریس۔ این سی پی ماضی کی حرکتوں سے کافی دباؤ میں ہیں۔ علاوہ ازیں، ایک طرف کانگریس ہائی کمان نے ریاستی قائدین کو بااختیار نہیں بنایا، دوسری طرف بی جے پی نے فڈنویس جیسے لیڈروں کو کافی خودمختاری اور اختیار دیا ہے۔ شخصیت سے متحرک انتخابی ماحول میں بی جے پی نے کامیابی سے ایک قابل قبول علاقائی چہرہ پروان چڑھایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پانی کی قلت سے لے کر کارگزاری دکھانے سے قاصر لیجسلیٹرز تک کئی مقامی مسائل ہونے کے باوجود بی جے پی اس ریاست میں بھرپور کامیابی حاصل کرنے کے موقف میں ہے۔ اگر 2019 جنرل الیکشن کو TIMO (there is Modi only) الیکشن کہا جائے تو مہاراشٹرا کو عین ممکن ہے TIFO (there is Fadnavis only) مینڈیٹ حاصل ہوگا۔
اختتامی تبصرہ
میڈیا کے ایک حالیہ اجتماع میں، مَیں نے فڈنویس سے سوال کیا کہ کیوں بی جے پی وہی سیاسی قائدین کو اپناتی جارہی ہے جن پر کبھی اسی نے کرپشن کے الزامات عائد کئے۔ ’’مجھے کوئی بھی لیڈر بتا دیجئے جسے ہم نے پارٹی میں شامل کیا، جس کے خلاف ای ڈی کیس ہے!‘‘ یہ اُن کا واضح جواب رہا۔ کرپشن کے دیگر مقدمات کو بھول جائیں، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) سیاسی اچھوت پن طے کرنے میں نئی کسوٹی ظاہر ہورہا ہے۔٭
[email protected]
