سنجے کے جھا
صدر کانگریس ملک ارجن کھرگے اور ان کے پیشرو راہول گاندھی شہریوں کو ہندوستانی جمہوریت کو درپیش خطرات کے خلاف خبردار کرتے رہے ہیں اور ملک کی جمہوریت اس کے دستور کو لاحق خطرات سے ہندوستانیوں کو واقف کروانے کا کام وہ کرتے جارہے ہیں اگر دیکھا جائے تو پچھلے دس برسوں کے دوران ملک میں جھوٹ و دروغ گوئی کے ذریعہ جس طرح طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا جھوٹ کے طوفان کا یہ قائدین سچائی اور حقائق کے ذریعہ مقابلہ کررہے ہیں وہ بار بار عوام کو خبردار کررہے ہیں کہ ملک کی جمہوریت ملک کا دستور ملک کا اتحاد و سالمیت خطرہ میں ہے اور ہمیں اپنے وطن عزیز ہندوستان کو ان خطرات سے بچانا ہے ملک میں مثبت تبدیلی لانا ہے ۔ اس کیلئے ہمیں حکومت کو تبدیل کرنا ہوگا ۔ ہمارے سسٹم میں جو سڑان پیدا ہوئی ہے اس کا موثر علاج کرنا ہوگا اور یہ سب کچھ صرف ایک جمہوری ہتھیار کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے اور وہ ہتھیار ہمارا ووٹ ہے ، ووٹ اس قدر طاقتور اور بااثر ہوتا ہے کہ جس کے صحیح استعمال سے ہم مثبت تبدیلی لاسکتے ہیں ۔ برے حالات کا رخ بدل سکتے ہیں ۔
صدر کل ہند کانگریس کمیٹی ملک ارجن کھرگے نے کئی عوامی جلسوں میں پر زور انداز میں کہا ہیکہ اگر مودی اور ان کی زیرقیادت بی جے پی حکومت کو اقتدار سے بیدخل نہیں کیا گیا تو پھر ہندوتان ، روس اور چین کی طرح بن جائے گا ۔ کھرگے کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی صدر روس ولامیر پوٹن کے ماڈل پر کام کررہے ہیں اور 2024 کے عام انتخابات ہندوستانی جمہوریت کو بچانے کیلئے عوام کیلئے آخری موقع ہے ۔ کھرگے کے اس قسم کے بیانات کو انتخابی موسم کی جذباتی تقاریر یا بیانات سمجھ کر نظرانداز کرنے کا وقت نہیں ہے یا ہمیں یہ بھی نہیں سمجھنا چاہئے کہ اپنی انتخابی تقریر میں حالات کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں انہیں سنگین بناکر پیش کررہے ہیں ۔ کانگریس کا یہ خوف اس کے یہ خدشات یوں ہی نہیں ہیں بلکہ پچھلے دس برسوں میں ملک میں جو کچھ بھی ہوا ہے وہ حالات کے غماز ہیں ۔ صرف کھرگے ، راہول گاندھی یا کانگریس اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کے قائدین ہی اس قسم کے خداشت ظاہر نہیں کررہے ہیں ملک کا دانشور طبقہ بھی یہی کہہ رہا ہے کہ جمہوریت و دستور کو بچانے کیلئے حکومت کی تبدیلی بہت ضروری ہے ۔ کانگریس کے قدآور رہنما و سابق مرکزی وزیر داخلہ و سابق وزیر فینانس مسٹر پی چدمبرم نے بھی یہی کہا ہیکہ اگر اس الیکشن میں درست اقدامات نہیں کئے جائیں گے درست فیصلہ نہیں لیا جائے گا تو پھر ہندوستان ایک انتخابی آمریت بن جائے گا ۔ واضح رہے کہ مسٹر پی چدمبرم مختلف حکومتوں میں نہ صرف وزارت فینانس اور وزارت داخلہ کے قلمدان کے حامل رہے بلکہ ملک کی سب سے قدیم سیاسی جماعت کانگریس کے کلیدی حکمت ساز بھی رہے ۔ دی وائر کو دیئے گئے اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے اپنے منفرد انداز میں آزادانہ و منصفانہ انتخابات کرانے سے متعلق الیکشن کمیشن کے کردار پر بھی سوال اُٹھایا ہے ساتھ ہی ملک میں خوف کے ماحول کو بھی اُجاگر کیا (اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ۔ مثال کے طور پر آج اگر ہم ملک کے سیاسی حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ حکومت اپوزیشن قائدین کے خلاف غیر جمہوری طریقے اپنارہی ہے ، بے شمار اپوزیشن قائدین جیلوں میں بند کردیئے گئے ہیں ، انہیں ضمانتیں دینے سے انکار کیا جارہا ہے اس طرح کے معاملات میں سپریم کورٹ کی مداخلت تک انتخابات کا انعقاد عمل میں آچکا ہوگا ۔ آپ دیکھیں گے کہ انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ED) اور انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ اُن پارلیمانی حلقوں میں حد سے زیادہ سرگرم ہیں جہاں اپوزیشن امیدوار مضبوط ہیں ۔ بی جے پی امیدواروں کے حد سے زیادہ انتخابی مصارف ، اصول و ضوابط کی خلاف ورزیوں پر جب شکایات کی جاتی ہیں تو ان شکایتوں کو نظرانداز کردیا جاتا ہے ان شکایتوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن کردیا جاتا ہے ایسے میں اگر ان انتخابات میں جمہوریت کو نہیں بچایا جاتا ہے تو مجھے ( چدمبرم کو ) اس بات کا خوف و خدشہ ہے کہ اگلے انتخابات بظاہر آزادانہ اور منصفانہ ہوں گے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ ایک غیر جمہوری الیکشن ہوگا ۔ دنیا کے چند دوسرے ملکوں کی طرح ہندوستان بھی ایک Electoral Autocracy بن جائے گا ۔ مجھے امید ہیکہ میں غلط ثابت ہوں گا ۔ آج ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ وزیراعظم واضح طور پر اور پورے دھڑلے کے ساتھ بناء کسی ہچکچاہٹ کے عوامی تائید و حمایت کیلئے مذہبی Metaphorsاور علامتوں کا استعمال کررہے ہیں ۔کیا ماضی میں الیکشن کمیشن نے ایک چھوٹے جرم کیلئے بال ٹھاکرے کو سزا نہیں دی تھی ؟ اب یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کئی برسوں سے الیکشن کمیشن آف انڈیا کی کارکردگی میں کئی نقائص کا مسلسل مشاہدہ کرنے کے بعد آخر کانگریس بہتر انداز میں انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ کرنے سپریم کورٹ سے رجوع کیوں نہیں ہوئی ؟
اگر آج ہم الیکشن کمیشن آف انڈیا کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہیکہ الیکشن کمیشن ایسا ادارہ نہیں رہا جو کبھی ’’ ٹی این سیشن ‘‘ کی قیادت میں ہوا کرتا تھا ، اگر دیکھا جائے الیکشن کمیشن ہماری شکایتوں کو نظرانداز کرنے یا اس کا جائزہ لینے اپنے خود مختار درجہ کو استعمال کررہا ہے ایسے میں ہم الیکشن کمیشن کو روز روز سپریم کورٹ نہیں لے جاسکتے ، ایک الیکشن لڑرہے ہیں قانونی کیس نہیں ۔ اب آتے ہیں کانگریس کے انتخابی منشور کی طرف جن میں انصاف اور امپاورمنٹ کے ایک نئے ویژن کی پیشکش کی ہے لیکن مسلم لیگ کے نقوش پر بحث کی جارہی ہے ۔ آپ یقیناً ہمارا اشارہ ضرور سمجھ رہے ہوں گے ۔ آپ کو بتادیں کہ 5 اپریل کو کانگریس کا انتخابی منشور جاری کیا گیا ۔ بی جے پی اس منشور کے بارے میں کچھ بھی منفی بات نہیں کرسکتی ایسے میں وزیراعظم نریندر مودی نے اچانک مسلم لیگ کے نقوش دریافت کر لئے ایسے میں کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بی جے پی کا انتخابی منشور آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا کا نقش ہے ۔ میں تو یہ کہوں گا کہ کانگریس کا انتخابی منشور میں دلتوں ، کسانوں ، قبائیلیوں ، خواتین اور نوجوانوں کے نقوش پائے جاتے ہیں ۔ وزیراعظم نریندر مودی خاص طور پر انتخابی منشور کو ایک مسلم لیگ کا زوایہ دے دیا ۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اب مساوات اور سیکولرازم پر بات کرنا کیوں مشکل ہوگیا ؟ آر ایس ایس ۔ بی جے پی نے ایسا ماحول فروغ دیا ہے جس میں کانگریس جس نے دستور کا مسودہ تیار کیا اپنے من کی بات واضح کرنے سے قاصر ہے ۔ آج ہمارے ملک کا یہ حال ہیکہ ہر کوئی خوف میں جی رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہیکہ آزادی اور خوف ایک ساتھ نہیں رہ سکتے اور ملک میں خوف کا جو ماحول ہے وہ بی جے پی نے پیدا کیا کانگریس ، بی جے پی سے لڑرہی ہے باہمت و باحوصلہ شخصیتیں بھی بی جے پی کا مقابلہ کررہی ہیں ایسے میں میں ہزاروں لاکھوں لوگوں پر زور دوں گا کہ وہ بی جے پی کی آمریت کے خلاف بات کریں ۔ جہاں تک مودی کی جانب سے 400 سے زائد نشستیں حاصل کرنے کے دعوی کا سوال ہے وہ ہوا کھڑے کرنے کے سواء کچھ نہیں ۔