بی جے پی کا اگلا صدر کیا مودی کا حریف ہوگا ؟

   

اجئے آشیرواد مہاپرشانتا
آر ایس ایس اور بی جے پی میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ جس طرح نائب صدرجمہوریہ کیلئے آر ایس ایس سے وابستہ ایک قدیم والینٹر کو امیدوار نامزد کیا گیا اور این ڈی اے امیدوار کے طور پر انہیں کامیابی بھی دلائی۔ اب آر ایس ایس یہ چاہتی ہے کہ نائب صدرجمہوریہ کیلئے جس طرح آر ایس ایس کے ایک والینٹر یا لیڈر کا انتخاب کیا گیا اسی طرح صدر بی جے پی کے عہدہ کیلئے بھی ار ایس ایس اور اس کی قیادت یہی چاہتی ہے کہ ایک ایسے شخص کو بی جے پی صدر بنایا جائے جو آر ایس ایس سے گہرا تعلق رکھتا ہو۔ ان حالات میں آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان کہیں نہ کہیں چپقلش چل رہی ہے۔ بہرحال مودی نے ایک ایسے وقت موہن بھاگوت کی زبردست تعریف کی ہے جبکہ دونوں لیڈروں کے درمیان کئی ایک امور پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ خاص طور پر وزیراعظم کا خود کو مرکزی حیثیت دینا بھاگوت کو پسند نہیں۔ بھاگوت نہیں چاہتے کہ آر ایس ایس کی سیاسی ونگ بی جے پی کسی ایک شخصیت کے اطراف گھومتی رہے اور پارٹی میں کسی شخصیت کا قد پارٹی سے بڑا ہو۔ مبصرین کے خیال میں یہی وجہ ہیکہ بی جے پی صدر کے انتخاب میں مسلسل تاخیر ہورہی ہے جب اس تاخیر کے بارے میں بھاگوت سے سوال کیا گیا تب ان کا جواب تھا کہ ہم اس کا فیصلہ نہیں کرتے اور نہ ہی کرنا چاہتے بلکہ بی جے پی قیادت کو ہی اس کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ موہن بھاگوت اس بات کا اعتراف ضرور کرتے ہیں کہ آر ایس ایس بی جے پی کو مشورے ضرور دیتی ہے تجاویز پیش کرتی ہے لیکن کسی بھی طرح حکمرانی اور سیاسی تقررات میں مداخلت نہیں کرتی (واضح رہیکہ نائب صدرجمہوریہ منتخب ہونے والے سی اے رادھاکرشنن 16 برس کی عمر سے آر ایس ایس سے وابستہ ہیں اگر یہ آر ایس ایس کی مداخلت نہیں تو اور کیا ہے؟) بھاگوت کا دعویٰ ہیکہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان یقینا کچھ اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن لڑائی نہیں لیکن حقیقت تو یہی ہیکہ بی جے پی اور آر ایس ایس کا ایجنڈہ اور مقاصد ایک ہی ہیں۔ اگرچہ بھاگوت کے مذکورہ ریمارکس کا مقصد بڑے پیمانے پر پھیلے اس مفروضہ کو رد کرنا ہے کہ بی جے پی صدر کے انتخاب میں ہمیشہ آر ایس ایس کا اہم کردار رہا ہے۔ بھاگوت کے ریمارکس کے برعکس آر ایس ایس کی منظوری کے بعد ہی کسی کو بی جے پی کا صدر مقرر کیا گیا اور سنگھ کی منظور کسی بھی امیدوار کے اہل ہونے کی بنیاد اور کسوٹی ہے۔ یاد کیجئے سال 2009ء میں کس طرح آر ایس ایس کے ایک منظورنظر نتن گڈکری کو بی جے پی کا صدر بنایا گیا حالانکہ ناگپور کے باہر انہیں بہت کم لوگ جانتے تھے باالفاظ دیگر وہ اس سیاسی قدوقامت کے حامل نہیں تھے جس کی بنیاد پر کہا جاتا کہ گڈکری ایک مقبول سیاستداں ہیں تاہم آر ایس ایس کے حکم پر ہی غیرمقبول نتن گڈکری کو بی جے پی کا صدر بنایا گیا جس سے نہ صرف بی جے پی کی مرکزی قیادت بلکہ وہ قائدین بھی پریشان ہوگئے جو پارٹی صدر کے عہدہ پر فائز ہونے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ کچھ ماہ قبل کئی ریاستوں میں بی جے پی کے صدور کے تقررات عمل میں لائے گئے یعنی تنظیمی انتخابات کروائے گئے اور ان انتخابات میں مداخلت کرتے ہوئے آر ایس ایس بی جے پی کی مدد اور اسے بچانے کیلئے آگے آئی۔ پارٹی کے علاقائی یونٹس میں اختلافات کے باعث ہی بی جے پی اپنی 36 ریاستی یونٹوں میں سے کئی ریاستوں میں اس کے ریاستی صدور کے انتخابات نہیں کرواسکی۔ آپ کو بتادیں کہ آر ایس ایس کی مداخلت کے باعث 18 ریاستوں میں اس کے ریاستی صدور کے انتخابات عمل میں آچکے ہیں۔ جہاں ایک سال سے ریاستی صدور کے انتخابات کروانے کی کوشش کی جارہی تھیں۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ بی جے پی کے موجودہ صدر جے پی نڈا کی میعاد جنوری 2024ء میں ختم ہوچکی ہے اور تب سے انہیں متعدد مرتبہ توسیع دی گئی کیونکہ پارٹی ان کی جگہ کسی اور کو صدر بنانے میں بالکلیہ طور پر ناکام ہوچکی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہیکہ کس کو پارٹی صدر بنایا جائے اس مسئلہ پر آر ایس ایس اور مودی۔ امیت شاہ کے درمیان اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔ امیت شاہ کے اشاروں پر کام کرے اور ہاتھ باندھے حکم میرے آقا کی رٹ لگاتا رہے۔ آر ایس ایس، مودی۔ امیت شاہ کے حکم پر جی ہاں کہنے والا ربر اسٹامپ صدر نہیں چاہتی۔ آر ایس ایس سے قربت رکھنے والے ذرائع نے دی وائر کو بتایا کہ سنگھ پریوار میں پہلے سے ہی پائی جانے والی مجہول صورتحال اس وقت مزید خراب ہوگئی جب آر ایس ایس نے جے پی نڈا کی جگہ سنجے جوشی کو بی جے پی صدر بنانے کی تجویز پیش کی۔ بی جے پی میں سنجے جوشی نریندر مودی کے طویل عرصہ سے کٹر حریف ہیں۔ یہ ویڈیو 2005ء میں منظرعام پر آیا تھا اور وہ ویڈیو ایسے وقت منظرعام پر آیا جبکہ مودی سنجے جوشی کو ناپسند کرنے لگے۔ اس کے باوجود سنجے جوشی بی جے پی کی مجلس عاملہ کے رکن کی حیثیت سے 2012ء تک سرگرم رہے۔ آر ایس ایس قائدین وقفہ وقفہ سے یہ کہنے لگے ہیں کہ مودی۔ شاہ کی قیادت میں بی جے پی کانگریس بنتی جارہی ہے۔ خاص طور پر 2024ء میں جے پی نڈا نے کہا تھا کہ بی جے پی کو کامیابی کیلئے کسی (آر ایس ایس) کی ضرورت نہیں چنانچہ 2024ء کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی 240 نشستوں تک سمٹ کر رہ گئی جس کے بعد آر ایس ایس کومودی اور امیت شاہ کو ان کی حیثیت یاد دلانے کا موقع مل گیا۔ آر ایس ایس ہر حال میں سنجے جوشی کو پارٹی صدر بنانا چاہتی ہے۔ اگر وہ پارٹی صدر مقرر نہیں کئے جاتے ہیں تب بھی سنجے جوشی کو دوبارہ بی جے پی جنرل سکریٹری کی حیثیت سے شامل کیا جائے گا۔ آر ایس ایس میں سنجے جوشی کا بہت احترام ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ آر ایس ایس نے سابق چیف منسٹر مدھیہ پردیش شیوراج سنگھ چوہان (موجودہ وزیر زراعت) کی بھی اس عہدہ کیلئے تائید و حمایت کی ہے لیکن وہ صدر بی جے پی بننے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ صدر بی جے پی کیلئے دھرمیندر پردھان، بھوپیندر یادو کے بھی نام لئے جارہے ہیں۔ تاہم دونوں مرکزی وزیر اور مودی ۔ امیت شاہ کے بااعتماد رفقاء میں شامل ہیں۔