بی جے پی کو خوش کرنے کیلئے کے سی آر کی بائیں بازو جماعتوں سے کٹیف

,

   

ضمنی چناؤ کے مدد گار اچانک بوجھ بن گئے، سی پی آئی اور سی پی ایم کے ساتھ دھوکہ، اپوزیشن اتحاد INDIA کی مخالفت کا اشارہ

حیدرآباد۔/22 اگسٹ، ( سیاست نیوز) بھارت راشٹرا سمیتی کے سربراہ کے چندر شیکھر راؤ نے بائیں بازو جماعتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو اچانک ختم کرتے ہوئے جس انداز میں ’ کٹیف‘ لے لی ہے اس پر سیاسی حلقوں میں سرگرم مباحث جاری ہیں۔ بائیں بازو کی جماعتیں سی پی آئی اور سی پی ایم کے قائدین خود بھی کے سی آر کے بدلتے رویہ پر حیرت زدہ ہیں کیونکہ تلنگانہ میں اسمبلی نشستوں کے ضمنی چناؤ کے موقع پر بائیں بازو کی تائید حاصل کرنے کیلئے کے سی آر نے اسمبلی چناؤ میں انتخابی مفاہمت کا بھروسہ دلایا تھا۔ چیف منسٹر کے سی آر نے ایک مرحلہ پر بائیں بازو جماعتوں سے ان کی نشستوں کے بارے میں تفصیلات طلب کیں لیکن کبھی بھی سی پی آئی اور سی پی ایم قائدین کو ملاقات کا موقع نہیں دیا۔ بائیں بازو جماعتوں کے منگوڑ ضمنی چناؤ میں بی آر ایس کی تائید کے بعد یقین ہوچلا تھا کہ اسمبلی چناؤ میں کے سی آر بائیں بازو جماعتوں کے ساتھ ملکر مقابلہ کریں گے۔ چیف منسٹر نے کل اچانک اسمبلی کے 115 امیدواروں کی فہرست جاری کرتے ہوئے بائیں بازو جماعتوں کے ساتھ عملاً وعدہ خلافی کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کے سی آر نے بائیں بازو جماعتوں کی طاقت کے بارے میں جو سروے کرایا تھا اس میں مفاہمت سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہ ہونے کا انکشاف ہوا۔ اس کے علاوہ کے سی آر موجودہ ارکان اسمبلی کو ناراض کرنا نہیں چاہتے کیونکہ بائیں بازو کی جانب سے تقریباً 15 تا 20 نشستوں کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔ اگر انہیں 10 نشستیں بھی الاٹ کی جاتیں تو پارٹی میں ناراضگی پیدا ہوسکتی تھی۔ کے سی آر کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک کی سیاسی صورتحال کے پس منظر میں بائیں بازو کو نظرانداز کرنے کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ سی پی آئی اور سی پی ایم قومی سطح پر کانگریس زیر قیادت اپوزیشن اتحاد INDIA کا حصہ ہیں۔ کے سی آر نہیں چاہتے کہ کانگریس اور بائیں بازو سے وابستگی ظاہر کرتے ہوئے بی جے پی اور بالخصوص مرکزی حکومت کی ناراضگی مول لیں۔ مرکز کی جانب سے تلنگانہ کے ساتھ مسلسل ناانصافی کی شکایت کی جارہی ہے لیکن چیف منسٹر نے حالیہ عرصہ میں بی جے پی اور مرکزی حکومت کو نشانہ بنانا ترک کردیا ہے۔ ان کی ساری توجہ کانگریس پارٹی پر ہے کیونکہ سروے کے مطابق کانگریس پارٹی تلنگانہ میں کرناٹک کی طرح مظاہرہ کرسکتی ہے۔ مبصرین کے مطابق بی جے پی کو مطمئن کرنے کیلئے کے سی آر نے سرخ پرچم کو تھامنے سے گریز کیا ہے اور وہ زعفرانی پرچم کو اپنے لئے نجات دہندہ تصور کررہے ہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ اسمبلی کے ضمنی چناؤ میں کمیونسٹ قائدین کے ساتھ انتخابی مہم اور اسٹیج شیئر کرنے والے کے سی آر کے نزدیک سی پی آئی اور سی پی ایم ایک بوجھ بن چکے ہیں جن سے بی آر ایس کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ بائیں بازو جماعتوں نے نلگنڈہ اور کھمم میں نشستوں پر دعویداری پیش کی تھی۔ مفاہمت کے مسئلہ پر بائیں بازو جماعتوں کو تاریکی میں رکھتے ہوئے کے سی آر نے یکطرفہ فیصلہ کرلیا ہے۔ بائیں بازو قائدین کا احساس ہے کہ کے سی آر مذاکرات کے ذریعہ اعتماد کی فضاء پیدا کرسکتے تھے لیکن جس انداز میں نظرانداز کیا وہ بائیں بازو کی توہین کے مترادف ہے۔ تلنگانہ کے نتائج سے لوک سبھا چناؤ کیلئے کے سی آر کی حکمت عملی واضح ہوجائے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ کے سی آر اسمبلی میں تیسری مرتبہ کامیابی کی صورت میں لوک سبھا چناؤ میں بی جے پی کے ساتھ مفاہمت کرسکتے ہیں۔ اسی دوران سی پی آئی قائد جے رنگاریڈی نے کہا کہ منگوڑ میں کے سی آر نے بی آر ایس کو شکست سے بچانے کیلئے بائیں بازو سے تائید کی اپیل کی تھی۔ کھمم جلسہ عام اور ان سے مختلف ملاقاتوں کے دوران کے سی آر نے کہا تھا کہ نہ صرف اسمبلی بلکہ قومی سطح پر بی جے پی سے مقابلہ کیلئے بائیں بازو کے ساتھ دوستی برقرار رہے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ مفاہمت کے مسئلہ پر بائیں بازو جماعتیں کے سی آر کی دعوت کی منتظر تھیں کہ اچانک 115 امیدواروں کی فہرست جاری کردی گئی۔ قائدین نے کہا کہ ضمنی چناؤ میں تائید کے ذریعہ مطلب نکل جانے کے بعد سی پی آئی اور سی پی ایم بوجھ دکھائے دے رہی ہیں۔