بی جے پی کو راجیہ سبھا میں کے سی آر اور جگن کی تائید کی ضرورت

   

دونوں کے جملہ 15 ارکان، تلگودیشم کا ایک بھی رکن نہیں، بی جے پی کیلئے نئی اُلجھن
حیدرآباد 10 جون (سیاست نیوز) بی جے پی نے لوک سبھا چناؤ میں اکثریت سے محرومی کے باوجود تلگودیشم اور جنتادل یونائیٹیڈ جیسی حلیف جماعتوں کی تائید سے حکومت تشکیل دی لیکن راجیہ سبھا میں اُسے کے سی آر اور جگن موہن ریڈی کی تائید کی ضرورت پڑے گی۔ لوک سبھا چناؤ میں بی جے پی نے آندھراپردیش میں تلگودیشم کے ساتھ مل کر مقابلہ کیا تھا جو وائی ایس آر کانگریس پارٹی کی کٹر حلیف ہے۔ اسی طرح تلنگانہ میں بی جے پی نے تنہا مقابلہ کیا اور الیکشن کے اعتبار سے کانگریس اور بی آر ایس اُس کے اہم حریف تھے۔ لوک سبھا میں کسی طرح اکثریت حاصل ہوگئی لیکن راجیہ سبھا کا مسئلہ بی جے پی قائدین کیلئے اُلجھن کا باعث بنا ہوا ہے۔ راجیہ سبھا میں بی جے پی کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہے جس کے نتیجہ میں اہم قوانین اور فیصلوں کی منظوری میں دشواری ہوسکتی ہے۔ گزشتہ دو میعادوں میں وائی ایس آر کانگریس پارٹی اور بی آر ایس نے کئی اہم بلز کی منظوری میں بی جے پی کی تائید کی حالانکہ یہ دونوں پارٹیاں حلیف نہیں ہیں۔ اب جبکہ لوک سبھا میں تلگودیشم سے اتحاد ہوچکا ہے لہذا راجیہ سبھا میں وائی ایس آر کانگریس پارٹی کی تائید کا حصول اہم چیلنج بن چکا ہے۔ وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے 11 ارکان راجیہ سبھا میں ہیں جبکہ بی آر ایس کے 4 ارکان ہیں، کسی بھی بل کی منظوری میں دونوں پارٹیوں کے 15 ارکان اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لوک سبھا کی حلیف تلگودیشم کا راجیہ سبھا میں ایک بھی رکن نہیں ہے۔ ایسے میں بی جے پی کو لوک سبھا میں تلگودیشم جبکہ راجیہ سبھا میں جگن اور کے سی آر کی تائید ضروری ہوجائے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ راجیہ سبھا میں حکومت کے فیصلوں کو کامیاب کرنے میں بی جے پی کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔ وائی ایس آر کانگریس پارٹی اور بی آر ایس کے موقف پر بھی عوام کی نگاہیں رہیں گی۔ دونوں پارٹیوں کے راجیہ سبھا ارکان کی میعاد اپریل 2026 ء اور اپریل 2030 ء میں ختم ہورہی ہے۔ راجیہ سبھا کی غیر یقینی سیاسی صورتحال کا کے سی آر اور جگن کس طرح فائدہ اُٹھائیں گے یہ آنے والے دنوں میں واضح ہوگا۔ 1