بی جے پی کو ووٹ دینے والا ہندو مرادآباد واقعہ کی ذمہ داری قبول کرے

   

پروفیسر اپوروانند
ماہ رمضان کا آغاز ہوچکا اور پہلے دس دن بھی گذر چکے ہیں۔ رمضان کے آتے ہی ہندوتوا وادی بھی سرگرم ہوگئے ہیں، نہیں … وہ لوگوں کیلئے افطار کے انتظامات نہیں کررہے ہیں، دوسرے مذاہب کے مبارک و مسعود موقعوں پر ان کی خوشیوں میں شامل رہنے سے متعلق وہ کسی قسم کے آئیڈیا سے ناواقف ہیں۔ ہم نے مسلمانوں اور سکھوں کو رام نومی کے جلوسوں میں شامل پر جوش شرکاء یا پھر کنوارپاوں کے جلوس میں پانی اور مشروبات تقسیم کرتے ہوئے دیکھا ہے، لیکن ہندوؤں کو اس طرح کے کام کرتے نہیں دکھایا، دوسروں کو ان کے مذہبی و تہذینی اور ثقافتی موقعوں پر خدمات کی پیشکش کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس کے برعکس وہ لوگ ہمیشہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے مقدس موقعوں پر رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بہانے تلاش کرتے نظر آئے۔ یہی وجہ ہیکہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے اب اس بات میں ایقان رکھنا شروع کرچکے ہیں کہ ہندو ان کی زندگیوں کے تئیں معاندانہ رویہ ہی اختیار کر رکھیں اور ان کی زندگیوں سے دور رہیں کیونکہ ہندوتوا دی جب بھی ان میں دلچسپی لئے ہیں ان کی طرف توجہ مرکوز کرتے ہیں تو ان کا امن و سکون برباد ہو جاتا ہے۔ میرے ہندو دوست اس امر پر اعتراض کریں گے کہ میں نے تمام ہندوؤں کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا۔ میں ایسا نہیں کررہا ہوں کیونکہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ہندوتوا کا ہندوؤں سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ہندوتوا کا ہندوؤں کی ترقی و خوشحالی سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ہندوتوا کو صرف اور صرف مسلمانوں اور عیسائیوں کو ستانے ڈرانے دھمکانے ان پر ظلم کرنے کی فکر ہے۔ ہندوؤں کو ہندوتوا برتری کا جھوٹا احساس دیتے ہوئے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کیاجارہا ہے۔ غیر منصفانہ طور پر اعتراضات کرتے ہیں وہ ہندوتواوادی ہے ہندو نہیں۔ مسلمانوں کے لئے رمضان برائیوں سے احتراز اور پرہیز گاری روزہ کا مہینہ ہے رمضان غریبوں، کمزوروں، بھوکوں، مفلسوں، ولاچار انسانوں کی مدد کا مہینہ ہے۔ یہ مقدس ماہ اللہ یا خدا کی عبادتوں اور قربت الٰہی کا مہینہ ہے۔ واضح رہے کہ روزہ اپنے نفس پر قابو پانے کی جانے والی کوشش ہے، روزہ صرف دن بھر بھوکے رہنے کا نام نہیں لیکن ہندوتوا وادیوں کے لئے یہ مہینہ نئے جوش و ولولہ کا باعث بنتا ہے اور یہ مہینہ ان کے لئے مسلمانوں کے خلاف نفرت کے اظہار کا ایک موقع ہوتا ہے جس میں وہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔ ان کی عبادتوں میں امن و امان کے نام پر رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں۔ حال ہی میں ہم سب نے اس طرح کی نفرت مراد آباد میں دیکھی جب بجرنگ دل کے کارکنوں نے ایک مسلمان کی عمارت کے سامنے زبردست احتجاج کیا۔ اس عمارت میں تراویح پڑھی جارہی تھی، تراویح کسی سرکاری یا نجی مقام پر نہیں بلکہ خود اپنی ذاتی عمارت میں مسلمان پڑھ رہے تھے اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں فرقہ پرستوں نے کیسے سنگین حالات پیدا کردیئے ہیں جہاں ایک مسلمان کسی بھی مذہبی سرگرمی کے لئے ایک گروپ کو مدعو نہیں کرسکتا۔ ذرا سوچئے عمارت ایک مسلمان کی ہے کوئی سرکاری ملکیت نہیں لیکن بجرنگ دل کو اعتراض ہے کہ ایک خاندان سے زیادہ افراد وہاں اجتماعی طور پر تراویح کیوں پڑھ رہے ہیں، اخر کیوں کسی کے گھر میں باجماعت نماز اور تراویح ادا کی جارہی ہے؟ بجرنگ دل نے اس مکان (گودام) کے باہر یہ کہتے ہوئے احتجاج کیا کہ اگر اس باجماعت تراویح کو نہیں روکا گیا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ جب ہندوتوا وادی گرجا گھروں کے باہر یا پھر عین نماز کے موقع پر مساجد کے سامنے ہنومان چالیسہ پڑھتے ہیں۔ بھجن گاتے ہیں اور یہ سب کچھ خلل پیدا کرنے کے لئے کرتے ہیں تو ایسے میں پولیس کو کیا کرنا چاہئے؟ قاعدہ کے مطابق پولیس کو چاہئے کہ امن میں خلل پیدا کرنے کے لئے بجرنگ دل کے غنڈوں کے خلاف ایک مقدمہ درج کرکے انہیں سزا دی جائے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ بجرنگ دل اور اس کے کارکنوں کو نوٹس دیئے جانے کی بجائے مرادآباد پولیس نے اس عمارت کے مالک اور اس میں نماز تراویح پڑھنے والے دوسرے مسلمانوں کو نوٹس دی۔ پولیس کے مطابق اگر وہ تراویح کے لئے اکٹھا ہوئے تو اس بات کے قوی امکانات پائے جاتے ہیں کہ وہ آپس میں لڑسکتے ہیں۔ بعض لوگوں نے نقص امن کے خدشات ظاہر کئے۔ ایسے میں کیوں نہ ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جانا چاہئے۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ پولیس نے فی کس 50 ہزار روپے شخصی مچلکہ بھرنے اور تحریری طور پر یہ عہد کرنے کے لئے بھی کہا کہ آئندہ وہ ایسا نہیں کریں گے ورنہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اگر آپ کو اس پر یقین نہ آئے تو پھر پولیس نوٹس پڑھ لیجئے۔ اس قسم کی مسلمانوں کو دھمکی دینے کے بعد پولیس نے دعویٰ کیا ہیکہ مسلمانوں نے وعدہ کیا ہیکہ وہ اپنے اپنے گھروں میں تنہا تراویح ادا کریں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پولیس نے مسلمانوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے غنڈوں کی دھمکیوں کے سامنے اپنے سر نہیں جھکائے اور اپنی ساکھ اپنا وقار کھو دیا یا پھر پولیس نے غنڈوں کے احساسات و جذبات سے خود کو جوڑ لیا۔ بعد میں مراد آباد ایس ایس پی ہیمراج مینا کا ایک پیام منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے کہا کہ کسی شخص کو یہ حق نہیں کہ وہ دوسروں کے مذہبی امور میں مداخلت کرے۔ اگر کوئی شخص نماز ادا کررہا ہے تراویح پڑھ رہا ہے یا پوجا پاٹھ کررہا ہے تو پھر دوسروں کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے اور اگر کوئی اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث پایا جائے تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اگر حقیقت میں ایسا ہے تو پھر پولیس نے بجرنگ دل کارکنوں کو نوٹس دینے کی بجائے مسلمانوں کو نوٹس کیوں دی۔ اب ملک میں حالات اس قدر خراب ہوگئے ہیں کہ ہندوتوا تنظیمیں اب یہ ہدایات جاری کرنے لگی ہیں کہ مسلمانوں کو رمضان کیسے منانا چاہئے، انہیں عید اور بکرعید پر کیا کرنا اور کیا نہیں کرنا چاہئے۔ محرم اور شب برأت کیسے منانا چاہئے اور افسوس کی بات یہ ہیکہ پولیس اور انتظامیہ مسلمانوں کو یہ تمام چیزیں قبول کرنے کے لئے مجبور کررہے ہیں۔ مسلمانوں کی ٹوپی، حجاب، نماز، قربانی، اذان غرض ہر چیز پر اعتراض کیا جارہا ہے۔ کرناٹک کے ایک بی جے پی لیڈر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ بی جے پی دوبارہ اقتدار میں آئے گی تو وہ مساجد کی میناروں سے بلند ہونے والی اذانوں کو روک دیں گے۔ دوسری طرف آسام کے چیف منسٹر یہ دھمکی دے رہے ہیں کہ وہ تمام دینی مدرسوں کو بند کردیں گے۔ حال ہی میں مہاراشٹرا میں نکالے گئے ہندوتوا کے جلوسوں میں لوجہاد کے خلاف نعرے لگائے گئے، حالانکہ ان جلوسوں سے لو جہاد کا کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ آپ نے حال ہی میں یہ بھی دیکھا کہ کرناٹک کی بی جے پی حکومت نے ریاست میں مسلمانوں کو دیئے جارہے چار فیصد تحقیقات بھی برخواست کردیئے۔ کالجس میں لڑکیوں کو حجاب کی اجازت سے انکار کیا۔ راجستھان کے جنیدار ناصر کا اغوا اور پھر ہریانہ میں ان کے بیدردانہ قتل غرض تمام واقعات کیا ایک دوسرے سے جڑے نہیں ہیں؟