بی جے پی کی سیاست اور آر ایس ایس کی حکمت عملی

   

رام پنیانی
اس مرتبہ 12 اکتوبر 2024 ء کو ہمارے ملک میں حسب روایت وجئے دشمی (دسہرہ) کا تہوار منایا گیا۔ اسی دن آر ایس ایس کا قیام عمل میں آیا تھا یعنی دسہرہ کے دن کو راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کا یوم تاسیس مانا جاتا ہے اور آر ایس ایس کے سابق سربراہوں (سر سنچالک) کے نقش قدم اور ان کی روایت پر عمل کرتے ہوئے اس کے موجودہ سر سنچالک موہن بھاگوت نے خصوصی خطاب کیا۔ ویسے بھی انھوں نے 2024 ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کے ناقص مظاہرہ (چونکہ وہ اپنے بل بوتے پر اکثریت حاصل کرنے سے قاصر رہی) کے بعد بھی اپنے اہم خطاب میں مودی اور امیت شاہ کو بالواسطہ طور پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ نریندر مودی نے خود کی پیدائش کو غیر حیاتیاتی قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ انھیں بھگوان نے بھیجا ہے۔ انتخابات کے بعد موہن بھاگوت نے ایک پلیٹ فارم پر خطاب میں نریندر مودی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور انہیں یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ آر ایس ایس کے سامنے مودی کی کوئی حیثیت نہیں اور سنگھ جسے چاہتا ہے اقتدار کے اعلیٰ عہدوں پر فائز کرسکتا ہے۔ عام انتخابات 2024 ء میں بی جے پی کے صرف 240 امیدوار کامیاب ہوئے جبکہ 2019 ء کے عام انتخابات میں اس کے 303 امیدواروں کو کامیابی ملی تھی۔ اپنے اس خطاب میں بھاگوت کا کہنا تھا کہ ایک شخص سوپر میان بننا چاہتا ہے پھر ایک دیو پھر ایک بھگوان بننا چاہتا ہے۔ 2024 ء کے عام انتخابات شائد وہ پہلے انتخابات رہے ہوں جس میں بی جے پی نے یہ دعویٰ کیاکہ ماضی میں وہ آر ایس ایس کی مدد اس لئے لے رہی تھی کیوں کہ وہ بہت کمزور تھی۔ اب وہ بہت طاقتور اور انتخابات میں اپنے بل بوتے پر کامیابی کے قابل ہوگئی ہے۔ بہرحال اس خطاب کے ذریعہ موہن بھاگوت نے نریندر مودی کے غرور و تکبر کو خاک میں ملادیا اور جس انداز میں وہ اپنے کو آپ اور دوسروں کو تُو کے مصداق سمجھ رہے تھے اس سوچ و فکر کے نشہ کو بھی اُتار دیا اور پھر ہریانہ اسمبلی انتخابات میں سب نے دیکھا کہ کس طرح آر ایس ایس نے بی جے پی امیدواروں کی کامیابی کے لئے کیسے سرگرم کردار ادا کیا۔ ساتھ ہی الیکشن کمیشن کی مبینہ ہیرا پھیری بھی بی جے پی کی کامیابی میں ممد و معاون ثابت ہوئی اور بھاجپا اقتدار برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ حالانکہ تمام سروے اور اوپینین پولس میں کانگریس کی کامیابی کو یقینی بتایا جارہا تھا لیکن جب نتائج منظر عام پر آئے تب سب کے سب حیران رہ گئے۔ کانگریس نے اگرچہ الیکشن کمیشن پر اپنا فرض ادا کرنے اور ہیرا پھیری کے الزامات عائد کئے لیکن الیکشن کمیشن نے ان الزامات کو سختی کے ساتھ مسترد کردیا اور کہاکہ اسمبلی انتخابات میں کوئی ہیرا پھیری نہیں کی گئی۔
آر ایس ایس سربراہ نے اب اپنے دسہرہ خطاب میں بی جے پی کی پالیسیوں کو دہرایا اور اس سلسلہ میں بطور خاص ان ریاستوں کا حوالہ دیا جہاں بی جے پی کی حکومتیں نہیں ہیں یعنی غیر بی جے پی حکومتوں والی ریاستوں کا ذکر کیا ساتھ ہی اپنی تقریر میں آر ایس ایس اور اہم ترین ہندوتوا سیاست کے گہرے مقاصد پر تفصیلی روشنی ڈالی ، Deep State کلچرل مارکسٹ اور Wokeism جیسے الفاظ استعمال کرتے ہوئے پرزور انداز میں کہاکہ یہ ایسے الفاظ ہیں جو تمام تہذیبی روایات کی دشمن ہیں ۔
آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کا جو طریقہ کار ہے وہ یہ ہیکہ سب سے پہلے تعلیمی اداروں کو اپنے زیر اثر لایا جائے اور پھر وہ معاشرہ کی سوچ و فکر ، اقدار اور عقائد و نظریات کو تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں پھر اس کے بعد مصنوعی طور پر مسائل پیدا کر کے لوگوں میں خود کے متاثر ہونے کا احساس پیدا کرتے ہیں اور پھر لوگوں کو وہ جارحانہ ذہنیت کا حامل بنادیتے ہیں اور اس طرح معاشرہ میں افراتفری کا ماحول پیدا کرتے ہوئے نظام کے تئیں ان میں خوف و نفرت بھر دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں نظام یا System سے وہ متنفر ہو کر اس کے خلاف صف آرا ہوجاتے ہیں یہ عناصر قوانین کے خلاف بھی لوگوں میں نفرت کا جدبہ اُبھارتے ہیں یہ اصل میں ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کی ملک پر اجارہ داری کو آسان بناتا چاہتے ہیں ۔ اگر آپ لفظ Wokeism پر غور کریں گے تو پتہ چلے گا کہ دائیں بازو کی طاقتیں اکثر ، ان لوگوں کے رویہ اور برتاؤ کی توہین کیلئے استعمال کرتے ہیں جو سماجی اور سیاسی انصاف سے متعلق بہت حساس ہوتے ہیں وہ ان لوگوں کے سخت مخالف ہوتے ہیں جو سماجی اور سیاسی انصاف کی بات کرتے ہیں اور اس کا مطالبہ کرتے ہیں ان کا موقف یہ ہوتا ہیکہ معاشرہ میں سب کے ساتھ سماجی سیاسی انصاف کیا جائے اس طرح اور اس قسم کے ہتھکنڈوں کے ذریعہ ہی دایاں بازو سماجی و سیاسی منظرنامہ میں اپنی اجارہ داری قائم کئے ہوئے ہے ۔ آر ایس ایس اور اس کے نظریات سے متفق تنظیمیں ایک ایسا طریقہ اپنائے ہوئے ہیں جہاں شاکھاؤں اور سرسوتی شیشومندر ، ابکل ویدیالیاوں اور اپنی زبان درازی ( اس کے وسیع تر نیٹ ورک ) کے ذریعہ سماجی عام عقل پر اثر انداز ہوتی ہے جو قدامت پسندی کو فروغ دیتی ہے ذات پات اور صنف پر مبنی درجہ بندی کو فروغ دیتی ہے ۔ آپ نے خود دیکھا ہوگا کہ آر ایس ایس ۔ بی جے پی اپنے ہمدرد و ہمنوا کارپوریٹ ( صنعتی گھرانوں و اداروں ) اور آئی ٹی سیلس کے توسط سے میڈیا پر کنٹرول حاصل کیا اور اس کے ذریعہ ان لوگوں نے سماج کے ایک بڑے طبقہ یا حصہ کی فکری تشکیل انجام دی ہے اور اس فکری تشکیل کو ہندو قوم پرست بیانات و تقاریر کے ذریعہ اپنی مرضی و منشاء اور اغراض و مقاصد کیلئے ایک نئی شکل دے رہی ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ Wokeism کیا کرتا ہے ؟ یہ ایک انصاف پسند معاشرہ کی ایک خواہش ہے یہ ذات پات رنگ و نسل زبان کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک کے خلاف ہے اور LGBT کے حقوق کی تائید و حمایت کرتا ہے ۔ یہ تمام انسانوں کے درمیان مساوات کی بات کرتا ہے جو برہمنی اقدار کیلئے جو ہندو قوم پرست سیاست کا مرکز ہے ،تکلیف کا باعث ہے اور اپنے برہمنی اقدار کو عام کرنے کیلئے وہ مذہب کا لبادہ اوڑھے وہ تمام سیاسی رحجانات کی راہ اختیار کرتے ہیں جیسے افغانستان میں طالبان دنیا بھر میں اخوان المسلمین ، سری لنکا اور مائنمار میں بدھ ازم کے نام پر مختلف تنظیموں نے اپنائے یا عیسائی بنیاد پرستوں نے جس طرح عدم مساوات کو فروغ دیتے ہیںایسا ہی ہمارے ملک میں یہ لوگ کرتے ہیں ایک اور طرح سے ہندو قوم پرست نظریہ کے بانیوں نے منوسمرتی کی زبردست تعریف و ستائش کی کیونکہ یہ دلتوں اور خواتین کو محکوم بناتی ہے چنانچہ آر ایس ایس بھی مسلمانوں اور عیسائیوں کو غیرملکی تصور کرتی ہے اور حد تو یہ ہیکہ آر ایس ایس نے خفیہ طور پر 1984 میں سکھوں کے قتل عام کی حمایت کی دائیں بازو کی سیاست Wokeism کو ایک برائی مانتی ہے کیونکہ یہ وہی ہے جو مساوات کے اقدار کو آگے بڑھانے کی خواہاں رہتی ہے جو معاشرہ میں سماجی تحریکوں کے سفر کا ہدف ہے یہی وجہ ہیکہ جمہوریت اورمحروم طبقات کی زیادہ تر تحریکوں کے سفر کا ہدف ہے جبکہ ہندوستان میں جہاں ہندو قوم پرست دلتوں ، خواتین اور ایل جی بی ٹی کی تحریکات کو حقیر گردانتی ہے ، وہیں مسلم اکثریتی ملکوں میں جہاں بنیاد پرست قوتیں اقتدار میں ہیں انکا سب سے بڑا نشانہ خواتین ہیں( اس طرح کا خیال عدم واقفیت کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے ) جیسا کہ آر ایس ایس اس کی ذیلی تنظیمیں مساوات کی اقدار کو قدیم سنہری دور کی اقدار سے تبدیل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں اور ان کا مقصد بھی یہی ہے ۔ آر ایس ایس کے نظریہ سازوں کے ذریعہ Wokeism کا لفظ محروم طبقات کے حقوق کو فروغ دینے والی تحریکوں اور نظریات کیلئے استعمال کیا جارہا ہے جو صرف اور صرف ایک دکھاوا ہے ان کا ظاہر کچھ اور باطن کچھ اور ہے ۔ اگرچہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان جو داخلی اختلافات ہیں وہ سنگھ پریوار کا اپنا معاملہ ہے لیکن دونوں کے بنیادی اقدار ایک ہی ہیں ۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان انا کا مسئلہ موجود ہونے کے باوجود اکثر مسئلوں پر بھاگوت کسی نہ کسی طرح بی جے پی کی تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں غیر بی جے پی حکومتوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا وہ کہتے ہیں کہ ان غیر بی جے پی حکومت کے باعث آج ملک کی شمال مغربی سرحد پر پنجاب ، جموں و کشمیر ، لداخ اور سمندری سرحد پر کیرالا ، ٹاملناڈو اور بہار سے لیکر منی پور تک سارے پورآنچل میں گڑبڑ ہے ۔جب موہن بھاگوت منی پور اور لداخ کو ایک ہی زمرہ میں رکھتے ہیں تو سمجھئے کہ بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے ۔ وہ یہی کہہ رہے ہیں جو بی جے پی کہتی ہے ۔ آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ حالیہ عرصہ کے دوران منی پور میں ککی قبائل اور خاص طور پر خواتین کے خلاف بدترین تشدد کا مشاہدہ کیا گیا اور بی جے پی حکومت نے اس معاملہ میں جو معاندانہ رویہ اختیار کیا وہ جہت زیادہ پریشان کن ہے ۔
جہاں تک لداخ کا سوال ہے ہم نے تحفظ ماحولیات اور مساویانہ شہریت کے مطالبہ کو لیکر کی گئی اور کی جارہی سب سے بڑی تحریکوں کو دیکھا ہے ۔ یہ مطالبات حقیقت میں جدوجہد کے لائق ہیں اور وہاں کی جدوجہد کیسی پرامن رہی اس سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ سونم وانگ چک کی شاندار و مثالی قیادت تاریخ میں سنہری الفاظ میں درج کی جائے گی اور ساتھ ہی آر ایس ایس کا سیاسی بغل بچہ بی جے پی نے لداخ کی ساری تحریک کو جس طرح نظرانداز کیا وہ ہندوستان کی جدید تاریخ کا یقیناً ایک سیاہ باب ہے ۔ بھاگوت نے آر جی کار میڈیکل کالج سانحہ کا حوالہ دیا لیکن خاتون پہلوانوں پر مبنی حملوں اور دلت لڑکیوں پر مظالم کا حوالہ نہیں دیا ۔ ایک مرتبہ یہی بھاگوت نے کہا تھا کہ ریپ کے واقعات انڈیا ( اربن ) میں ہوتے ہیں بھارت ( گاؤں میں نہیں ہوتے ، اب ریپ کے زیادہ تر بی جے پی کی زیراقدار ریاستوں کے دیہاتوں میں ہورہے ہیں ۔ وزارت سماجی انصاف کے مطابق یو پی میں 12287 ، راجستھان میں 8651 اور مدھیہ پردیش میں 7732 ریپ کے واقعات پیش کئے۔