بی جے پی کی مذہب کے نام پر سیاستاور چیف پاپ اکاونٹنٹ

   

روش کمار
بی جے پی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مذہب کی سیاست کرتی ہے مذہب کے نام پر لوگوں کو تقسیم کر کے اپنا اُلو سیدھا کرتی ہے وہ اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال کرتی ہے بہرحال اُس پر اس قسم کے متعدد الزامات عائد کئے جاتے ہیں جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بی جے پی مذہب کی سیاست کے جال میں پھنس گئی ہے مذہب اب اس کیلئے توہم پرستی کی طرح ہوتا جارہا ہے ۔ مذہبی مسائل سے جڑے موضوعات یا مسلوں کے بغیر اس کے لیڈر عوام کے درمیان کیوں نہیں جاپاتے ؟کیا یہ ان کی یہ توہم پرستی بن گئی ہے کہ اگر مذہب اور مذہبی علامتوں کی بات نہیں کریں گے تو عوام انہیں ووٹ دینے کے لائق نہیں سمجھے گی ۔ سیاست کی جس کتاب کو لیکر بی جے پی آر ایس ایس کی لائبریری سے چلی ہے اس کے پاس مذہب کو لیکر بھی اب کچھ نیا کہنے کو بھی نہیں ہے ملک کے سیاسی سماج کے سامنے ایک سوال رکھا جانا چاہئے کہ کیا بی جے پی اس کے لیڈران بناء مذہب کے استعمال کے سیاست کرنے کے لائق بچے ہیں ۔ کیا کوئی بھی ایسا لیڈر ہے جو مذہبی علامتوں کا ، مندر کا ذکر کئے بغیر اپنی تقریر ختم کر لے ۔ کیا اس میں مذہب کی اخلاقیات ، مذہب کا سچ اور مذہب کی طاقت ان سب کا کچھ بھی حصہ آپ کو دکھائی دیتا ہے ۔ انگریزی کے موقر روزنامہ دی ہندو میں خبر شائع ہوئی ہے کہ سورت میں گزشتہ 8 ماہ میں تقریباً 50 ہزار لوگ بیروزگار ہوگئے ۔ وہاں کی ڈائمنڈ انڈسٹری میں تباہی مچی ہے ۔ مہیش لانگا نے لکھا ہیکہ 70 لوگوں نے اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرلیا ۔ 50 ہزار لوگ بیروزگار بیکار ہوگئے وہاںخاموشی چھائی ہوئی ۔ لکھنو میں ایک آئی فون کیلئے آکاش شرما اور گجانند شرما نے بھرت کمار کا گلاگھونٹ دیا بھرت فلپ کارڈ کا ڈیلیوری بوائے تھا ۔ ان سب پہلوؤں پر بی جے پی کے لیڈران بات ہی نہیں کرتے آج کے سلگتے مسائل پر بات ہی نہیں کرتے ، ماضی کے مسائل اور تنازعات کا بھوت کھڑا کرتے رہتے ہیں ۔ بی جے پی کے رہنما کب ان مسائل پر خود سے بات کریں گے ۔ کیا حکومت میں رہتے ہوئے ان پُرانے مسائل پر بات کرنے کیلئے کوئی پابندی لگی ہے ۔ مذہب اور ماضی کے سچے اور جھوٹے واقعات کی مثالوں سے ایک بھیانک ماحول تیار کردیئے ہیں جہاں آدمی کو ماضی بھی ٹھیک سے دکھائی نہیں دیتا ۔ ہریانہ انتخابات کی مہم میں چیف منسٹر اُترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ کی تقاریر سن کر لگا کہ اس پر بات ہونی چاہئے کہ بی جے پی کے پاس نیا کہنے کیلئے کچھ بچا ہے یا نہیں ۔ ہمارا مذہب ، ان کا مذہب ، ہماری تہذیب ان کی تہذیب تقابل چلتا ہی رہتا ہے ایک دوسرے کو اونچا نیچا دکھانے کا کام چلتا رہتا ہے ۔ بہار کی سیاست میں تو روم اور روم کے پوپ دونوں ہمیشہ سے مقبول رہے ہیں ۔ مدھیہ پردیش کے یادو اکثریتی علاقہ میں نعرہ چلتا تھا کہ روم پوپ کا اور مدھیہ پورہ گوپ کا ابھی ذرا پروموشن ہوا ہے تو رام کی تہذیب بہ نام روم کی تہذیب کی بات یوگی آدتیہ ناتھ کرنے لگے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی حال ہی میں جن سے جھک کر گلے مل رہے ہیں وہ روم کی تہذیب کے سب سے بڑے پوپ ہیں ۔ کیا پوپ فرانسس کو پتہ بھی ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی سے گلے مل رہے ہیں مگر ان کی پارٹی کے دوسرے طاقتور لیڈران روم کی تہذیب کے بارے میں کیا خیال رکھتے ہیں ۔ 2021 میں خود وزیراعظم نے اپنے سوشیل میڈیا پر ایک تصویر شیئر کی تھی جس میں وہ پوپ فرانس سے بغلگیر ہیں یہ بھی لکھا تھا کہ انہوں نے پوپ کو دورہ، ہندوستان کی دعوت دی ہے ۔ یہی نہیں روم جس ملک میں ہے اٹلی اس ملک کی وزیراعظم کے ساتھ مودی کی قربت اور خوشگوار تعلقات کے چرچے چلتے رہتے ہیں ۔ وزیراعظم میلونی نے ہمیشہ ان سیاسی تعلقات کا پرجوش مظاہرہ کیا ہے اور وزیراعظم مودی کے کھاتے میں ایسی تصویریں انٹرنیشنل فتح کی شکل میں درج کرادی جاتی ہیں لیکن اٹلی سے ہندوستان کے اچھے تعلقات ایک طرف اور ہریانہ کے انتخابات میں روم کی تہذیب کی دھلائی ایک طرف ، یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنی تقاریر میں رام کی اور روم کی تہذیب کے فرق کو بار بار واضح کرنے کی کوشش کی تہذیبیں ایک دوسرے سے بہتر بھی کہی جاتی ہیں ان میں دوسری تہذیبوں کی خوبیاں یا مماثلت بھی پائی جاتی ہیں ۔ ہندوستان کی تہذیب میں بھی سینکڑوں چیزیں ہیں جو کسی سے بھی مختلف ہیں اور کئی چیزیں ہیں جو دوسری تہذیبوں سے ملتی جلتی ہیں لیکن جب آپ ایک اہم اپوزیشن سیاسی جماعت کو روم کی تہذیب میں پلی بڑھی کہتے ہیں تو ٹھیک سے بتانا چاہئے کہ کانگریس کی تہذیب میں روم کا کونسا حصہ ہے مذہب اور ہندوستانیت کے نام پر پہچان کی سیاست گڑھنے چلی ۔ بی جے پی نے دونوں ہی معاملوں میں کوئی خاص مثال پیش نہیں کی کسی کو غیرقانونی طور پر گرفتار کرنا ہو ، جیل میں ٹھونس دینا ہو اور بڑی بیدردی سے انکاونٹر کردینا ہو ان کی حکومتوں میں اس کے ہی مثالیں زیادہ مل جاتے ہیں کچھ نیا نہیں دکھائی دیتا مذہب سے کچھ تو اخلاقیات آتی ہوگی ۔ کیا بی جے پی آج خود کو مذہب کی طاقت سے آزاد کہہ سکتی ہے ۔ انتخابات سے پہلے قتل اور عصمت ریزی کے معاملہ میں سزاء پائے رام رحیم کو جب Parole پر رہا کیا جاتا ہے کیا تب بی جے پی مذمت کرتی ہے اس کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرتی ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی کیا رام رحیم کی اس طرح پیرول پر بار بار رہائی کی مذمت کرسکتے ہیں کیا ان کا مذہب اتنی بھی ہمت و جرات نہیں دیتا ۔ جب برج بھوشن سنگھ پر الزام لگے تب بی جے پی نے اس معاملہ میں وام کی مریادا کا کونسا اصول لاگو کردیا ۔ برج بھوشن سنگھ کا ٹکٹ کٹا تو ان کے بیٹے کو ٹکٹ دے دیا گیا ۔ گیری راج سنگھ نے تروپتی مندر کے پرساد کو لیکر ٹوئیٹ ہی کردیا کہ تحقیقات میں واضح ہوگیا کہ لڈو میں گائے کی چربی ہے ۔ سپریم کورٹ نے اس جھوٹ کا پردہ فاش کردیا ۔ تحقیقات بھی پوری نہیں ہوئی تھی اور حقیقت آشکار بھی نہیں ہوئی تھی پھر بھی گری راج سنگھ نے جھوٹا بیان دیا ۔ کیا رام کی تہذیب پھیلانے کا دعوی کرنے والے گری راج سنگھ میں اتنی بھی اخلاقی جرات باقی نہیں رہی کہ اپنے ٹوئیٹ پر افسوس کا اظہار کرتے معافی مانگتے ۔ اس لئے میرا سوال ہے کہ مذہب کی سیاست نے بی جے پی کو اندھا کردیا ماضی پر فخر کرنے والی پارٹی بنادیا ہے ۔ سیاست کا اس کا مذہب کسی کو سچ پر چلنے والا نہیں بنارہا ہے اخلاق و جرات کا حامل نہیں بنارہا ہے، تنگ نظری کی نئی نئی منزلیں طے کرنے لگ جاتا ہے ۔ پروقار چلنا اس کیلئے مشکل ہوگیا ہے اور بی جے پی لیڈروں نے ایسا کونسا آئیڈیل پیش کیا جس کا تقابل آپ رام کی مریادا سے آس پاس بھی کرسکتے ہیں ؟ وزیراعظم نریندر مودی کے ہی کئی بیان مل جائیں گے جنہیں پوری طرح جھوٹا ثابت کیا جاچکا ہے جذباتی بیان تو ان کے کئی مل جائیں گے آئے دن ملتے رہتے ہیں ۔ این چندرا بابو نائیڈو کی بات کرتے ہیں وہ مذہب کی سیاست میں نئے نئے کود پڑے ہیں کودتے ہی سپریم کورٹ سے ڈانٹ کھا گئے کہ جب تحقیقات چل رہی ہے تروپتی مندر کے لڈو میں چربی شامل کئے جانے کی توثیق نہیں ہوئی ہے اور ملاوٹی گھی کے لڈو بنے بھی نہیں تو اس طرح کے بیان انہوں نے کیوں دیئے یہ غیردستوری کام ہے اور لاکھوں لوگوں کے عقیدہ سے کھلواڑہے ۔ چندرا بابو نائیڈو کے بیان کو لیکر مرکزی وزیر گری راج سنگھ بیان دیتے ہیں اس طرح کی جھوٹ پر سیاست کرنے کی درجنوں مثالیں آپ کو دی جاسکتی ہیں ۔ کیا دوسروں کی سات پیڑیوں کے گناہوں کا حساب رکھنے والے چیف پاپ اکاونٹنٹ پردھان منتری جی اس پر پیشمانی کا اظہار کرسکتے ہیں ۔ وزیراعظم نے حال ہی میں ایک تقریر میں بڑے ہی جذباتی اور برہم انداز میں کچھ یوں کہا کہ میں انڈیا اتحاد والوں کو کہہ رہا ہوں میں چپ بیٹھا ہوں اس کا مطلب یہ نہیں کہ ’’ میں کمزور ہوں ۔ غلطی مت کیجئے مودی کو سمجھنے کی اگر مودی جس دن منہ کھولے گا تمہاری 7 پیڑیوں کے پاپ نکال کر رکھدوں گا ‘‘ بہرحال ان دس برسوں میں ایک مرتبہ بھی آپ نے سنا کہ وزیراعظم کے بیان میں جھوٹ پکڑا گیا ہو اور انہوں نے اسے قبول کرنے کی اخلاقی جرات کا مظاہرہ کیا ہو ۔ یہی ہمارا سوال ہے کہ بی جے پی کی مذہب کی سیاست نے مذہب کو کیا دیا اور مذہب نے بی جے پی کی سیاست کو کتنا سچا اور اخلاقی طور پر حوصلہ مند بنایا ۔ بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے مواد کو لیکر آئے دن لوگ ثبوت اور اعداد و شمار کے ساتھ بتاتے رہتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے ، فریب ہے ، فرضی ہے ، پھر بھی عادت بند نہیں ہورہی ہے ۔ یہ کیسی مذہب کی سیاست ہے جہاں اس قدر جھوٹ بولا جارہا ہے اس پر بی جے پی مذہب کی سیاست پر فخر کرتی ہے تو کیوں نہیں بتاتی ہے کہ مذہب کی وجہ اس کی سیاست میں سچ کی پرچھائی نظر کیوں نہیں آتی جھوٹ اور بھرم کا استعمال کیوں ہے ۔ چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ نے ’’ اتفاق سے ہندو ‘‘ جیسے لفظ کا استعمال کردیا ۔ ان کی تقاریر لکھنے والوں نے انہیں بتایا نہیں ہوگا کہ Accidental Hindu کی بات یا افواہ کہاں سے چلی آرہی ہے ۔ ارجن سدھارتھ نے الٹ نیوز سے اس کا Fact Check کیا ہے جو آئی ٹی سیل کے علاوہ برسوں سے پھیلایا جارہا ہے ۔ اچھے اچھے لوگ دھوکہ کہا جاتے ہیں نہرو نے خود کو Accidental Hindu کہا تھا جبکہ ایسا نہیں ہے نہرو نے اپنے بارے میں کبھی ایسی بات نہیں کہی یہ بات ان کیلئے ہندو مہا سبھا کے نیتا این بی کھرے نے کہی تھی ۔ نہرو نے کبھی بھی خود کو اتفاقی طور پر بنا ہندو نہیں کہا ۔ ہریانہ کی جس عوام کے درمیان یوگی آدتیہ ناتھ رام کی تہذیب کا تقابل روم کے تہذیب سے کررہے تھے اس عوام کو روم کی تہذیب کے بارے میں کیا پتہ ہے اس کے پڑوسی کا اسپتال تو ٹھیک سے کام کرتا ، سڑکوں میں گڑھے ہیں اور نوجوانوں میں نشہ کا چلن ہے اس کے بچے جس طرح کے کالجوں میں پڑھتے ہیں کم سے کم اس کی صورت ہی یوگی جی روم والوں کو دکھادیں ۔